امریکا کی سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور سابق صدر استغاثہ سے کچھ حد تک مستثنیٰ قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ملک کی 18ویں صدی کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سابق صدور کو کسی بھی صورت میں مجرمانہ الزامات سے بچایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ سابق صدور کو اپنے عہدے پر کیے گئے کچھ اقدامات کے لیے استغاثہ سے استثنیٰ حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خود کو مجرمانہ الزامات سے بچانے کی کوشش کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
ججوں نے 6-3 کے تناسب سے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیا اور یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر سنایا گیا ہے جب امریکا میں ہونے والے عام انتخابات میں صرف 4 ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے جس میں ٹرمپ کے مدمقابل ڈیموکریٹس کے امیدوار اور موجودہ صدر جو بائیڈن امیدوار ہیں۔
چیف جسٹس جان رابرٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایک صدر کو اپنے عہدے پر رہتے ہوئے سرکاری کارروائیوں کے لیے فوجداری مقدمے سے ’مکمل استثنیٰ‘ حاصل ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری یا نجی نوعیت کی کارروائیوں کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں ہے اور کیس کو یہ کہہ کر زیریں عدالت میں بھیجا دیا کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ سابق صدر پر لگائے گئے الزامات میں سے کون سا سرکاری اور کون سا نجی نوعیت کا ہے۔
3 ججوں نے فیصلے سے اختلاف کیا اور جسٹس سونیا سوٹومائیر نے کہا کہ ہماری جمہوری تاریخ میں کبھی بھی کسی صدر کو اس بات پر یقین نہیں رہا کہ اگر وہ فوجداری قانون کی خلاف ورزی کے لیے اپنے دفتر کا استعمال کرتے ہیں تو وہ فوجداری مقدمے سے محفوظ رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ ہے اور اسی لیے میں فیصلے سے اختلاف کرتی ہوں۔
الیکشن کے کیس میں ٹرمپ کے مقدمے اصل تاریخ الیکشن سے کئی ماہ 4 مارچ کی مقرر تھی لیکن سپریم کورٹ میں موجود ججوں نے فروری میں صدارتی استثنیٰ کے لیے ان کی دلیل سننے پر اتفاق کیا جس کی وجہ سے کیس کی کارورائی تعطل کا شکار ہو گئی۔
4 مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنے والے ٹرمپ کم از کم انتخابات کے بعد تک ٹرائل میں تاخیر کے لیے پر طرح کا حربہ استعمال کررہے ہیں۔
30 مئی کو نیویارک کی ایک عدالت نے ٹرمپ کو سنہ 2016 کی صدارتی مہم کے آخری مراحل میں جنسی اسکینڈل کو چھپانے کے لیے جھوٹے کاروباری ریکارڈ پیش کرنے کے الزام میں 34 سنگین الزامات میں مجرم ٹھہرایا تھا جس کے بعد ٹرمپ ایسے پہلے سابق امریکی صدر بن گئے تھے جنہیں جرم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔
ان کو اس کیس میں 11 جولائی کو سزا سنائی جائے گی۔
دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ جنوری 2025 میں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد ان کے خلاف جاری وفاقی ٹرائل بند کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ خطرناک نظیر ہے، جو بائیڈن
دریں اثنا امریکا کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فوجداری مقدمے سے جزوی استثنیٰ دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خطرناک نظیر قرار دیا ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ اس فیصلے نے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا اور امریکیوں کے لیے خوفناک نقصان ہے۔
کئی ڈیموکریٹس نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ کانگریس کی ترقی پسند خاتون الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے اس فیصلے کو امریکی جمہوریت پر حملہ قرار دیا۔