سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوتے ہی آئندہ سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی گئی ہے۔ سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔
فل کورٹ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں۔ ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں۔ پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوتے ہی کیس کی سماعت 9 جولائی دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر آئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟ جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لوگوں کو علم تھا کہ آزاد قرار دیے گئے امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں، مکمل انصاف کا اختیار اور کہاں استعمال کرنا ہے جب عدالت پوری تصویر ہی نہ دیکھ سکے،کیا عدالت آنکھیں بند کرلے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیر آئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی پٹواری کی زمین کے تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔
الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تصور نہیں کرتا تو وہ پارلیمانی پارٹی کیسے بن سکتی؟ جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایسا ہو سکتا کہ سیاسی جماعت اگر پارلیمانی پارٹی نہ ہو لیکن سیٹ جیتے تو پارلیمانی پارٹی تصور کی جاسکتی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انتخابات ہی تعین کریں گے کہ پارلیمانی پارٹی کون ہوگی؟ آزاد امیدوار اگر ہوں تو پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں آزاد امیدوار کے بارے میں نہیں پوچھ رہی، میں انتخابات میں حصہ لینے کے حق کے حوالے سے پوچھ رہی ہوں، آپ کے مطابق سیاسی جماعت ہی پارلیمانی پارٹی بنے گی۔ ابھی تو ہم دیکھ رہے آزاد امیدوار سیاسی جماعت ہیں یا نہیں؟ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں۔ لیکن ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد پارلیمانی پارٹی بن چکی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر سنی اتحاد ضمنی انتخابات میں جیتتی ہے تو پارلیمانی پارٹی بن سکتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تصور نہیں کرتا تو وہ پارلیمانی پارٹی کیسے بن سکتی؟
الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی پارٹی مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے؟ جسٹس منیب اختر
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کی تشریح مان لیں تو پارلیمان میں بیٹھے اتنے لوگوں کا کوئی پارلیمانی لیڈر نہیں ہوگا؟ مؤقف مان لیا تو کسی کیخلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہوگی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک طرف ہمیں بتایا جاتا ہے الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اب الیکشن کمیشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کو سنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں ناں الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی پارٹی مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے؟ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کو بتا رہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟
’مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں ،،،، تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ‘
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس نوٹیفکیشن کی حیثیت کیا ہے؟ ڈپٹی رجسٹرار کے خط کو سپریم کورٹ کا مؤقف کیسے مانا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سرکاری طور پر ہونے والی کمیونیکیشن کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشنز کا تعلق نہیں۔ (اٹارنی جنرل منصور اعوان نے علامہ اقبال کا شعر سنایا) مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں ،،،، تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ۔
آزادامیدوار کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا جو پارلیمانی پارٹی نہ ہو، اٹارنی جنرل
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نوٹیفکیشن سے زرتاج گل کو پارلیمانی لیڈر بھی بنا چکا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی نہیں بنا سکتے، آزاد امیدواروں نے اسی میں شامل ہونا ہوتا ہے جو پارٹی کم از کم ایک سیٹ جیت کر آئی ہو۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ یعنی سیاسی جماعت کے جیتے ہوئے امیدوار ہوں تو سیاسی پارٹی آٹومیٹکلی پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزادامیدوار پارٹی بنا لے تو آرٹیکل 51 نافذ نہیں ہوگا، آزاد امیدوار کی اسمبلی سے باہر تو پارٹی تصور کی جائےگی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزادامیدوار کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا جو پارلیمانی پارٹی نہ ہو۔
الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرچکا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب دلائل میں وہ خود بتا دیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹیفکیشن پر کیا کہتے ہیں؟ ( جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھایا۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھا دیا)۔
پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے، اٹارنی جنرل
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں۔ آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں، موجودہ سچوئشن بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا یہ ان کا کام ہے۔ آئین میں کیا کیوں نہیں، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے۔ بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔ اٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں۔ پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے۔ پارلیمانی پارٹی کی مثال غیر متعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔
الیکشن کمیشن نے ان کو آزاد قرار دیا تو کیا عدالت کو غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر 4 ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔
ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 2024 میں بہت بڑی ہے۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر اسمبلی مدت ختم ہونے میں 120 دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں؟
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کو الیکشن سے نکال کر آئین کی خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ کو بنیادی سوال کو دیکھنا ہو گا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے الیکشن سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی سنگین خلاف ورزی کی۔ بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کے ناتے ہماری ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کریں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہوگا۔ سوال ہے کیا آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت ہوسکتی ہے۔ کیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے یا نہیں؟
جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔ 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا۔ اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین اور اقلیتیوں کو نمائندگی دینا ہے۔ آزاد امیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھ کر سنایا۔ کہا 272 مکمل سیٹیں تھیں، 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا۔ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں۔ اٹارنی جنرل نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں اور 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔
غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان
سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے بھی بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو۔ سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی۔ مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔ غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔