نواز شریف! بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟

بدھ 3 جولائی 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نواز شریف چپ ہیں۔ مسلم لیگ ن نے نواز شریف کے نام پر جھوٹ بولا۔ چوتھی دفعہ وزیر اعظم کا نعرہ لگوایا، جلسے کروائے، جلوس نکلوائے، اخبارات میں اشہارات چھپوائے اور انتخابات کے بعد اچانک اعلان کیا کہ ہمارے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے۔

اس ملک کے عوام کے ساتھ دن دہاڑے اتنا بڑا دھوکہ ہوا۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلا گیا۔ لوگوں کو سیاسی اور جذباتی طور پر بلیک میل کیا گیا۔ لوگوں کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ ایک بہت بڑا فراڈ ہوا۔ چوتھی دفعہ وزیر اعظم کا نعرہ ہر اس شخص نے لگایا جس نے بعد میں عوام کو سمجھایا کہ ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا کہ نواز شریف وزیراعظم بننے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ وہ وزیراعظم کے عہدے سے ماورا ہیں۔ وزیراعظم کا رتبہ ان کے سامنے ہے ہی ہیچ۔

اب ان کا اصل منصب ہے کہ وہ پنجاب کے تندوروں کو اپنی حاضری سے سرفراز کریں یا ان کا مرتبہ ہے کہ بلدیاتی امیدواروں سے ملاقات کریں مگر وزیراعظم کا عہدہ ان کی لازوال شخصیت کو سوٹ نہیں کرتا۔ اب ان کا مقام کچھ اور ہے۔

یہ سب کچھ کھلی آنکھوں دن دہاڑے ہورہا ہے۔ اس پر مسلم لیگ ن کے کارکن طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف چپ ہیں۔

ہم نے مژدہ سنا ہے کہ نواز شریف ملک کے وزیراعظم تو نہیں بن رہے مگر پارٹی کی صدارت قبول کررہے ہیں۔ یہ خبر آنی تھی کہ کارکنان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب ہماری مشکلات کا حل سامنے آرہا ہے، اب ہمارا مسیحا آرہا ہے۔ اب وہ پارٹی کی قیادت سنبھالے گا۔ اب وہ وقت آ گیا ہے جب وطن کا ہر غریب نواز شریف کو دعائیں دے گا کیونکہ دلوں کی دھڑکن نواز شریف ہی ہے۔

یہی بات سیاسی نغمات میں بتائی گئی تھی، یہی نعرے جلسوں میں لگائے گئے تھے۔ انہی سے لوگوں کے دل گرمائے گئے تھے۔ پھر وہ سعد دن آیا۔ نواز شریف نے پارٹی کی صدارت سنبھالی۔ ایک بوسیدہ تقریر کی جس میں ثاقب نثار کے بارے میں قریباً ایک دہائی پرانے الزامات کو دہرایا۔ ڈھیلی ڈھالی تقریر کی۔ اپنے اوپر ڈھائے مظالم کا ذکر کیا۔ جیل کی صعوبتوں کا حال بیان کیا۔ اپنے دور کی حکمتوں اور دانشمندانہ فیصلوں پر بات کی۔ کچھ اخلاقیات کا درس دیا۔ گالم گلوچ سے احتراز کی تلقین کی۔ اس دن کے بعد سے اس ملک کے عوام نے دیکھا کہ نواز شریف چپ ہیں۔

سنا تھا کہ شہباز شریف صرف نام کے وزیراعظم ہیں، اصل وزیراعظم نواز شریف ہی ہیں۔ سارے فیصلے ان کی مرضی اور منشا سے ہوتے ہیں۔ وزیر مشیر تو بڑی چیز ہیں ایک ڈی ایس پی بھی ان کی مرضی کے خلاف نہیں لگ سکتا۔ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم نواز شریف نے صرف شہباز شریف پر نظر رکھنے کے لیے لگوایا ہے۔ پارٹی کے ہر لیڈر کو ہر معاملے میں نواز شریف کی تائید کرنا ضروری ہے۔

وہ وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں احتراماً کرسی پر بیٹھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما میاں صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے کو ہی اپنی سیاست کی معراج سمجھتے ہیں۔ نواز شریف آج بلائیں تو پی ٹی آئی کے سوا ساری سیاسی جماعتوں کے قائدین ان کی ایک کال پر دوڑیں آئیں۔ زرداری صاحب نے معروف تو یہ کر رکھا ہے’ایک زرداری سب پر بھاری‘ پر وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا ستون نواز شریف ہیں۔ ان کی حکومت سے اٹھکیلیاں تو کرنی ہیں مگر ان کو چھوڑ کر نہیں جانا۔ اس لیے کہ انہیں چھوڑ گئے تو خود کہیں کے نہیں رہیں گے۔ نواز شریف اس میدان سیاست میں اپنی اہمیت بخوبی جانتے ہیں مگر نواز شریف چپ ہیں۔

سننے میں آرہا ہے کہ نواز شریف کسی سے ناراض ہیں۔ اس وجہ سے چپ ہیں۔ ان کی ناراضی اپنی جگہ لیکن اب ان کے چاہنے والے ان سے ناراض ہونے لگے ہیں۔ ان کو نواز شریف کی خاموشی کھلنے لگی ہے۔ یہ مسلسل خامشی ان کے زخموں پر نمک بن چکی ہے۔ جو ان کے حق میں نعرے لگاتے نہ تھکتے تھے اب ان سے سوال کرنے لگے ہیں کہ آپ کے نام پر ہمیں دھوکہ دیا گیا لیکن آپ خاموش رہے، کیوں؟

آپ نے پارٹی کی صدارت سنبھالی اور پھر بھی کسی بھی غریب کی صدا آپ کی سماعتوں تک نہ پہنچی، کیوں؟ میاں صاحب بجلی کے بل قیامت بن کر ہم پر برس رہے تھے اور آپ خاموش رہے، کیوں؟ لوگوں کے بچے مہنگائی سے، بھوک سے بلک بلک کر بھوکے سو جاتے ہیں اور آپ ثاقب نثار کے قصے سنا رہے ہیں، کیوں؟

وفاق میں آپ کے بھائی کی حکومت ہے، پنجاب میں آپ کی بیٹی کی حکومت ہے اور پورے ملک میں غریب کا جینا اجیرن ہے، کیوں؟ تنخواہ دار طبقہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے اور آپ جیل میں اپنی صعوبتوں کا ذکر کررہے ہیں، کیوں ؟

جن لوگوں نے آپ کے نام پر ووٹ دیا، آپ کو چوتھی دفعہ وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھا وہی آپ کی حکومت کو کوس رہے ہیں اور آپ خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں، کیوں؟

اس مہنگائی کے عالم میں جب غریب دفن ہورہا ہے، مڈل کلاس ختم ہورہی ہے، تنخواہ دار طبقہ ماتم کناں ہے۔ ایسے میں ایم این اے اور ایم پی ایز کے لیے پانچ سو ارب روپے کے فنڈز مختص کردیے گئے۔ اتنی بڑی ناانصافی ہوئی۔ غریب کے گھر پر اتنا بڑا ڈاکہ ڈالا گیا اور آپ خاموش ہیں۔ کیوں؟

میاں صاحب لوگوں نے آپ سے بے پناہ محبت کی، آپ سے ہمیشہ عقیدت کا مظاہرہ کیا لیکن اب لوگ آپ سے شکوہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب آپ کی حکومت ان کے زخموں پر نمک چھڑکتی رہی، ان کی اذیتوں پر قہقہے لگاتی رہی، ان کی بے بسی پر جشن مناتی رہی تو آپ چپ کیوں رہے؟

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں نواز شریف! بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp