فلپائن: بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کے خلاف متحرک ’سائبر سپاہی‘

بدھ 3 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنوب مشرقی ایشیا کے ملک فلپائن کا شمار ایسی جگہوں میں ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ پر بچوں کا آن لائن استحصال عام ہے اور کورونا کی عالمی وبا کے سبب اس میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے زیراہتمام بچوں کے آن لائن تحفظ سے متعلق اقدامات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدالتی افسروں اور قانونی حکام کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

غیررسمی نیٹ ورک

انہوں نے اس مقصد کے لیے کام کرنے والے اپنے جیسے مردوخواتین کا ایک چھوٹا سا غیررسمی نیٹ ورک شروع کیا تھا جو بچوں کا آن لائن استحصال کرنے والوں کو ڈھونڈنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

چھوا نہیں تو استحصال، عجیب استدلال

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی ویڈیوز اور تصاویر 15 سے 20 ڈالر میں آن لائن فروخت ہو رہی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران آن لائن جنسی بدسلوکی اور استحصال کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا کیونکہ اس دوران بہت سے لوگوں کی نوکریاں اور روزگار ختم ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ ’چھوا نہیں تو نقصان نہیں‘ کا گمراہ کن تصور بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انسٹاگرام پر بچوں کو فحش ویڈیوز تجویز کیے جانے کا انکشاف

ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں میں بچوں کے خاندان کے ارکان اور رشتے دار بھی ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بچے کو جسمانی طور پر چھوا نہ گیا ہو تو یہ جنسی بدسلوکی یا استحصال نہیں کہلائے گا۔

عالمی مسئلہ

فلپائن میں حالیہ دنوں یہ رحجان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے کے والدین کا کوئی ساتھی یا مرد دوست (بوائے فرینڈ) اپنی تکنیکی مہارت کی وجہ سے نامناسب مواد ڈارک ویب پر جاری کر کے کرپٹو کرنسی کی صورت میں معاوضہ حاصل کرتا ہے۔

جب ایسے والدین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسے لوگوں کے ہاتھ کیوں دیتے ہیں جو ان کا آن لائن استحصال کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ کیا آپ ہمیں بھوکا مرتے دیکھنا چاہتے ہیں؟

وینائلز کا کہنا ہے کہ یہ نہایت دل شکن بات ہے کہ بہت سے بچوں کو اس وقت تک اپنے استحصال کا علم نہیں ہوتا جب تک انہیں جرائم پیشہ عناصر کے چنگل سے چھڑا نہ لیا جائے۔ یہ بچے بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی مدد کر رہے ہیں اور انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کی آن لائن تصاویر اور ویڈیو آئندہ عمر میں ان کا مستقبل برباد کر دیں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ غربت سے جنم لینے والا صرف فلپائن کا مسئلہ نہیں ہے۔ بچوں سے متعلق آن لائن جنسی مواد کے صارفین عموماً سمندر پار ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہے اور یو این او ڈی سی ایسے ممالک میں کام کر رہا ہے جہاں یہ جنسی مواد خریدا جاتا ہے۔ ادارہ مختلف ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین تعاون کی حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہے تاکہ اس بدسلوکی کا خاتمہ ہو سکے۔ اگر اس مواد کے صارفین نہیں ہوں گے تو یہ صنعت قائم نہیں رہ سکے گی۔

چینگ وینائلز

باہمی تعاون

چینگ وینائلز بتاتی ہیں کہ فلپائن میں سائبر پولیس، قانونی حکام، سائبر جرائم کی کھوج لگانے اور ان کا قلع قمع کرنے والا ادارہ اور عائلی عدالتیں مل کر بچوں کا آن لائن استحصال کرنے والوں کو تلاش کرنے اور اس مسئلے پر قابو پانے میں مصروف ہیں۔

یہ مسئلہ متاثرین اور قانون نافذ کرنے والے افسروں اور قانونی حکام سے لے کر وکلا اور عدالتی عملے تک اس پر قابو پانے والوں کے اذہان پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ایف آئی اے کی کارروائی: بچوں سے جنسی زیادتی میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار

وہ بتاتی ہیں کہ یو این او ڈی سی کی قومی پروگرام افسر کی حیثیت سے ایسے لوگوں کو اس ذہنی اذیت سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ان کی ذمے داری ہے جو انہیں دل شکن آن لائن جنسی مواد کے پھیلاؤ سے نمٹتے ہوئے جھیلنا پڑتا ہے۔

اس ضمن میں پہلے وہ واٹس ایپ اور وائبر گروپس میں ایک دوسرے کی خیرخیریت پوچھتے تھے اور اب وہ کافی پیتے یا کھانا کھاتے وقت ایک دوسرے کے مسائل سنتے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وینائلز کے مطابق وہ اور ان کے ساتھی ایک دوسرے کو فون پر پیغام بھیجتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا کسی خاص مسئلے سے نمٹنے کے لیے خصوصی مہارت کا حامل کوئی فرد بھی گروپ میں موجود ہے۔ اس طرح ازخود ماہرین اور ساتھیوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک بن گیا ہے جس میں شامل لوگ واقعتاً ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔

غیر تحریری معاہدہ

وینائلز کے تمام ساتھیوں نے ایک غیرتحریری عہد کیا ہوا ہے کہ جب تک اس مسئلے پر خاطرخواہ حد تک قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک کوئی بھی اس گروپ یا نوکری کو نہیں چھوڑے گا۔ ان کے ایک ساتھی نے اپریل میں استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد گروپ چیٹ ایک ہفتے تک بند رہی۔ تاہم بہت سے معاملات سے نمٹنا تھا بچوں کا استحصال کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے پھانسنے اور تربیتی پروگراموں کے انعقاد جیسا کام ضروری تھا اور اسی لیے سب ہی دوبارہ فعال ہو گئے۔

محفوظ انٹرنیٹ

چینگ وینائلز کہتی ہیں کہ بحیثیت ایک ماں وہ یو این او ڈی سی کے اس مقصد سے تحریک پاتی ہیں کہ بچوں کو کسی نقصان کے خطرے سے بے نیاز ہو کر انٹرنیٹ سے کام لینا چاہیے۔

انہیں یہ فخر بھی ہے کہ ان کے کام کی بدولت بہت سے لوگوں کی تکالیف میں کمی آتی ہے اور وہ انہیں اکٹھا کرتی اور یہ یاد دہانی کراتی ہیں کہ وہ سب ہی جو کام کر رہے ہیں اس سے انٹرنیٹ کی دنیا کو قدرے مزید محفوظ بنانے میں مدد ملتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp