سزائے موت کے مجرم کو 12 سال بعد رہائی مل گئی

بدھ 3 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے 12 سال سے جیل میں قید سزائے موت کے ایک مجرم کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے باعزت بری کردیا۔
جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کا فیصلہ قلعدم قرار دیا۔

عدالتی حکمنامے کے مطابق، مجرم محمد اعجاز عرف بلا کی سزائے موت اور شریک مجرمہ نسیم اختر کی عمرقید کی سزا کالعدم قرار دی گئی، مجرم محمد اعجاز پر 2010ء میں شریک مجرمہ کے شوہر کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہواتھا۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: بچوں کے گلے کاٹ دینے والے سوتیلے باپ کو سزائے موت، واحد گواہ کون تھا؟

حکمنامے میں کہا گیا کہ مقدمہ کے مطابق دونوں مجرمان کے درمیان ناجائز تعلقات تھے، مدعی مقدمہ کے مطابق دونوں مجرمان مقتول کو الیکٹرک شاک دیتے پائے گئے تھے۔

عدالت نے اپنے حکمنامے میں لکھا کہ مدعی مقدمہ نے مجرمان کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو مجرم محمد اعجاز نے فائرنگ شروع کردی۔ مقدمہ کے مطابق محمد اعجاز کی فائرنگ سے شریک مجرمہ کا شوہر جاں بحق ہوگیا۔

حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ وکیل صفائی کے مطابق خودکشی کے کیس کو قتل قرار دیا گیا۔ دونوں مجرمان کے درمیان کوئی ناجائز تعلقات ثابت نہیں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مجرم کو 2 بار سزائے موت کا حکم

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا، ’وکیل صفائی کے مطابق مقتول کو مدعی نے خاندانی وراثت سے حصہ نہیں دیا جس پر مقتول نے خودکشی کرلی جبکہ پراسیکیوٹر کے مطابق مدعی مقدمہ وقوعہ کا عینی شاہد ہے، دونوں مجرمان مقتول کو اپنی زندگی سے ختم کرنا چاہتے تھے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے ثبوتوں کا بغور جائزہ لیا، بیانات اور ثبوتوں میں تضادات ہیں، مدعی مقدمہ کے مطابق مقتول نے اسے مجرمان کے ناجائز تعلقات کا بتایا، مدعی مقدمہ خود سے مجرمان کے ناجائز تعلقات کا عینی شاہد نہیں۔

عدالتی حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ مقتول نے اپنی اہلیہ اور محمد اعجاز عرف بلا کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا تھا، حیرت ہوئی کہ ماتحت عدلیہ نے بغیر کسی ثبوت کے ناجائز تعلقات قرار دیے۔

یہ بھی پڑھیں: ورجینیا: شادی کے بعد 12 سال تک جبری مشقت سہنے والی پاکستانی خاتون رہا

عدالت نے کہا کہ وقوعہ دن کی روشنی میں ہوا لیکن کسی نے مدعی مقدمہ کی کہانی کی حمایت نہیں کی، ریکارڈ کے مطابق مجرمہ اپنے شوہر کو خاندانی وراثت میں سے حصہ لینے کا دباؤ ڈالتی تھی۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ مجرمہ کے 4 بچے تھے جن کا والد دنیا میں نہیں رہا، بچوں کی پرورش کے لیے والدہ کا ان کے پاس ہونا ضروری ہے، لیگل سسٹم کے ذریعے ماں کو بچوں سے جدا کردیا گیا جس کا بچوں پر ذہنی اثر پڑرہا ہے لہٰذا عدالت محمد اعجاز عرف بلا اور نسیم اختر کو کیس سے بری کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp