برطانوی انتخابات، رشی سوناک کی کنزرویٹیو پارٹی کو شکست کیوں ہوئی؟

جمعہ 5 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برطانوی انتخابات میں تمام نشستوں پر تقریباً دو تہائی گنتی کے ساتھ لیبر پارٹی نے کم از کم 326 نشستیں حاصل کی ہیں، جو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کافی ہیں، خاطر خواہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے کیئر سٹارمر برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم بننے کے لیے تیار ہیں۔

ایک ایگزٹ پول کے مطابق 5 مختلف وزرائے اعظم کے تحت ایک دہائی سے زائد اقتدار میں رہنے کے بعد بھارتی نژاد رشی سوناک کی کنزرویٹو پارٹی کی نشستیں کم ہو کر 131 رہ جائیں گی، پارٹی کی 2 صدیوں پر محیط تاریخ میں یہ کنزرویٹو پارٹی کی بدترین انتخابی کارکردگی ہے جو پارٹی کو انتشار سے دوچار کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی انتخابات: لیبر پارٹی نے میدان مارلیا،کیئر اسٹارمر وزیراعظم ہونگے

کنزرویٹو پارٹی کی تاریخی شکست

ایک ایسے وقت کہ جب ابتدائی رجحانات اور ایگزٹ پول سروے کیئر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی کی بھاری اکثریت سے جیت کا نقشہ کھینچ رہے ہیں، رشی سوناک نے قبل از وقت عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کی شکست کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

برطانیہ میں ووٹروں نے جمعرات کو قومی انتخابات میں 650 قانون سازوں کا انتخاب کرنے کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جو اگلے 5 سالوں کے لیے پارلیمنٹ میں بیٹھیں گے، لیبر پارٹی کی یہ فتح 14 سال کی بیشتر ہنگامہ خیز کنزرویٹو حکمرانی کا اختتام کرے گی۔

رشی سوناک کا اعتراف شکست

اسے ایک ’مشکل رات‘ قرار دیتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے جمعہ کو برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیبر پارٹی جیت گئی ہے۔ ’لیبر پارٹی نے یہ عام انتخابات جیت لیے ہیں اور میں نے سر کیئر اسٹارمر کو ان کی جیت پر مبارکباد دینے کے لیے فون کیا ہے۔‘

مزید پڑھیں: برطانیہ کے نومنتخب وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر کون ہیں؟

برطانوی انتخابات میں جہاں لیبر پارٹی کی زبردست جیت برطانیہ کی سیاست میں ایک زلزلے نما تبدیلی کے طورپر لی جارہی ہے وہیں کنزرویٹو پارٹی کے اس انتخابی مگر تاریخی نقصان کے پیچھے چُپھے عوامل بھی گفتگو کا موضوع ہیں۔

ووٹر کی تھکاوٹ اور تاریخی رجحانات

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کے ہارنے کی ایک بڑی وجہ ووٹرز کی تھکاوٹ ہے، کسی بھی برطانوی سیاسی جماعت نے لگاتار 5ویں مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کی، برطانوی سیاست مختلف وقفوں میں مختلف سیاسی رجحان کے ساتھ فعال رہتی ہے۔

’عام طور پر دو اہم پارٹیوں کے درمیان 10 سے 15 سال کے درمیان مقابلہ رہتا ہے تاوقتیکہ ووٹرز اپوزیشن کے حق میں فیصلہ دیدیں، کنزرویٹو پارٹی نے 1979 سے 1997 تک حکومت کی، لیبر پارٹی نے 1997 سے 2010 تک، اور اس کے بعد کنزرویٹو نے حکومت کی، ووٹر صرف تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔‘

مزید پڑھیں: برطانیہ میں ووٹنگ کا آغاز، الیکشن میں کتنے امیدوار حصہ لے رہے ہیں؟

معیشت اور پالیسی سے متعلق غلطیاں

کنزرویٹو پارٹی کو ان کے معاشی کارکردگی کے ریکارڈ کی بنیاد پر بھی مسترد کیا گیا ہے، ٹیکس میں اضافے اور امیگریشن کی ریکارڈ سطحوں نے برطانیہ کے سیاسی منظر نامے پر نائیجل فاراج کی واپسی کا باعث بنی ہے، جو ایک پاپولسٹ ہیں اور جنہوں نے یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی مہم چلائی اور اب ایک نئی پارٹی ریفارم یو کے تشکیل دے چکے ہیں۔

انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریفارم پارٹی نے تقریباً 15 فیصد ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس سےکنزرویٹو کی حمایت ختم ہو رہی ہے، نائیجل فاراج نے کہا ہے کہ وہ انتخابات کے بعد سےکنزرویٹو  پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

قدامت پسند قانون ساز اسٹیو بیکر کے مطابق یہ ظاہر ہے کہ بہت مشکل تھا، کچھ قانون سازوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ سے دوچار کنزرویٹو پارٹی انتخابات کے بعد تحلیل ہونے سمیت نائیجل فاراج کے سپرد ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم کی ساس سدھا مورتی بھارتی راجیہ سبھا کی رکن بن گئیں

اسکینڈلز کا ایک سلسلہ

کنزرویٹو پارٹی کی حمایت کا خاتمہ 2010 میں شروع ہونے والی سیاسی قوس کا فائنل ایکٹ بن کر رہ گیا ہے، پے در پے اسکینڈلز، بشمول بورس جانسن کا کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران پارٹیوں میں شرکت اور لز ٹرس سے جڑا ٹیکس میں کٹوتیوں کا تنازعہ، ووٹر کے اعتماد کو ختم کر چکے تھے۔

رشی سوناک کو کنزرویٹو پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کو محدود کرنے کے لیے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ بھیجا گیا مگر وہ بھی عوام سے رابطے میں جدوجہد کرتے ہی نظر آئے، پچھلے ہفتے ایک ٹاک شو میں، ایک خاتون نے ان سے پوچھا کہ ایک وزیر اعظم جو بادشاہ سے زیادہ امیر ہو، ہماری کسی بھی ضرورت اور جدوجہد سے کیسے آگاہ ہوسکتا ہے؟

رشی سوناک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوفی، جب فوڈ بینکوں کی بات آتی ہے، تو میں ہمیشہ ان لوگوں کا ناقابل یقین حد تک شکر گزار ہوں جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر جوبائڈن کے سبب برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کو شدید خفت کا سامنا

رشی سوناک یا قربانی کا بکرا

رائے عامہ کے جائزوں میں لیبر پارٹی سے تقریباً 20 پوائنٹس سے پیچھے رہنے کے باوجود کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے رشی سوناک نے مئی میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے اپنی پارٹی سمیت بہت سوں کو حیران کر دیا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ عمومی طور پر انتخابات کے دوران یہ فرق ختم ہو جائے گا۔

تاہم رشی سوناک کی توقعات کے برعکس ایسا نہیں ہوا اور انہیں ایک تباہ کن مہم کا سامنا کرنا پڑا، 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر ووٹ کا اعلان کرتے ہوئے رشی سوناک کے بارش میں بھیگنے کے ساتھ مہم کا آغاز خراب ہوا۔

مزید مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب بشمول معاونین اور کنزرویٹو امیدواروں پر مشتمل جوئے کا اسکینڈل سامنے آیا اور فرانس میں ڈی-ڈے کی یادگاری تقریبات سے خود بحیثیت وزیراعظم ان کی جلد روانگی پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

گراس روٹس کنزرویٹو آرگنائزیشن کے چیئرمین ایڈ کوسٹیلو کے مطابق ہم شکست کے مستحق تھے۔ ’کنزرویٹو پارٹی صرف تھکی ہوئی اور خیالات سے عاری دکھائی دیتی ہے لیکن یہ سب رشی سنک کا قصور نہیں ہے۔ یہ بورس جانسن اور لز ٹرس ہیں جنہوں نے پارٹی کو تباہی سے دوچار کیا، رشی سوناک صرف قربانی کا بکرا ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp