پورے ملک کو ری سیٹ کرنا پڑے گا، نئے برطانوی وزیر اعظم کا پہلا خطاب

جمعہ 5 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نئے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ہمارے ملک نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے، کسی بھی ملک کو ایک بٹن دبانے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، ہمارے ملک کو ایک بڑے ری سیٹ کی ضرورت ہے۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر بادشاہ چارلس سے ملاقات کے بعد لندن کی 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پہنچے جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کا استقبال کیا، سرکاری رہائش گاہوں کے باہر عوام سے خطاب کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے نئے منتخب وزیر اعظم نے عوام کا بھرپور شکریہ ادا کیا۔

کیئر اسٹارمر نے کہا کہ شاہی محل سے واپس آیا ہوں، شاہ چارلس نے حکومت بنانے کی دعوت دی ہے جسے میں نے قبول کرلیا ہے۔ عوام نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے، ہم نے اور ہمارے ملک نے تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانوی انتخابات، رشی سوناک کی کنزرویٹیو پارٹی کو شکست کیوں ہوئی؟

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، برطانیہ کو ایک بار پھر رہنمائی کرنے والا ملک بنائیں گے، ہر شہری کو احترام کی نظر سے دیکھیں گے، جنہوں ووٹ نہیں دیا ان کی بھی خدمت کریں گے۔

’ورکنگ کلاس کی زندگی مزید بہتر بنائیں گے‘۔

سابق وزیر اعظم رشی سوناک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کیئر اسٹارمر نے کہا کہ پہلے ایشیائی وزیر اعظم رشی سوناک کا بھی مشکور ہوں انہوں نے بے حد محنت کی ہے۔ اس وقت دنیا کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، آج کے بعد حکومت صرف عوام کی بھلائی کے لیے کوشاں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنائے گی، عوام کی خدمت ہمارا مشن ہے۔

کیئر اسٹارمر کون ہیں؟

برطانوی ایوان میں بطور قانون ساز داخل ہونے کے صرف 9سال بعد اسٹارمر لیبر پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔

لندن میں پیدا ہونے والے 61 سالہ سیاستدان کیئر اسٹارمر نے کمرہ عدالت سے ویسٹ منسٹر کی راہداریوں تک شاندار اور طویل راستہ طے کیا ہے۔ محنت کش طبقے کے خاندان میں پرورش پانے والے اسٹارمر کی ابتدائی زندگی تعلیم اور عوامی خدمت کے عزم سے سرشار تھی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی انتخابات: لیبر پارٹی نے میدان مارلیا،کیئر اسٹارمر وزیراعظم ہونگے

انہوں نے ریگیٹ گرامر اسکول، لیڈز یونیورسٹی اور بعد ازاں سینٹ ایڈمنڈ ہال آکسفورڈ سے قانون کی تعلیم حاصل کی، انہوں نے بیرسٹر کے طور اپنے کیریئر کا آغاز کیا، انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے ناتے جلد ہی انہوں نے اپنے آپ کو ایک مضبوط شخصیت کے طور پر منوا لیا۔

ان کی قانونی ذہانت اور لگن کو دیکھتے ہوئے انہیں 2008 میں ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن کے عہدے پر فائز کیا گیا، وہ اس عہدے پر 2013 تک فائز رہے۔ اس دوران وہ پیچیدہ اور ہائی پروفائل کیسز پر اپنے کام کے لیے جانے جاتے تھے۔

سیاست اور قیادت میں منتقلی

اسٹارمر کی فعال سیاست میں تبدیلی 2015 میں اس وقت آئی جب وہ ہولبورن اور سینٹ پینکراس کے ممبر پارلیمنٹ کے طور پر منتخب ہوئے۔ وہ تیزی سے لیبر پارٹی کی صفوں میں شامل ہوگئے، انہوں نے شیڈو بریگزٹ سیکرٹری سمیت اہم شیڈو کابینہ کے عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

اسٹارمر کے محتاط انداز اور قانونی پس منظر نے انہیں یوروپی یونین سے برطانیہ کے اخراج پر ہونے والے مباحثوں میں ایک نمایاں آواز بنا دیا۔ اپریل 2020 میں، وہ جیریمی کوربن کی جگہ لیبر پارٹی کے رہنما کے طور پر منتخب ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں شکست، رشی سوناک نے عوام سے معافی مانگتے ہوئے کیا کہا؟

اسٹارمر کی قیادت کی خصوصیت اتحاد اور عملیت پسندی پر مرکوز ہے۔ انہوں نے سماجی انصاف، معاشی قابلیت، اور ناراض لیبر ووٹروں کے ساتھ تعلقات کو از سر نو تعمیر کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کوربن دور کے تنازعات سے پارٹی کو دور کرنے کی کوشش کی۔

چیلنجز اور مستقبل کے امکانات

لیبر پارٹی کے لیڈر بننے کے بعد سے اسٹارمر کو اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں پارٹی کی اندرونی تقسیم اورکورونا وائرس کی وبائی مرض شامل ہے۔ ان کے دور میں ملے جلے انتخابی نتائج دیکھنے میں آئے ہیں، جن میں قابل ذکر کامیابیاں اور ناکامیاں ہیں۔

خارجہ پالیسی اور غزہ جنگ کے موقف پر تنقید

لیبر لیڈر کے طور پر اسٹارمر نے کہا کہ وہ پارٹی کو عالمی سطح پر دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، امریکا اور یورپی یونین جیسے روایتی شراکت داروں کے ساتھ مضبوط اتحاد پر زور دیتے ہوئے، ماحولیاتی تبدیلی اور بین الاقوامی سلامتی جیسے عالمی چیلنجوں کے لیے مضبوط ردعمل کی وکالت بھی کر رہے ہیں۔

تاہم اسٹارمر کے اسرائیل اور فلسطین تنازعہ سے نمٹنے پر ان کی پارٹی کے اندر اور بیرونی مبصرین کی طرف سے خاصی تنقید کا سامنا ہوا ہے۔ اسٹارمر کو فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے طرز عمل نے لیبر پارٹی کے اندر بہت سے لوگوں کو الگ کر دیا ہے جو فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور جنگ کی مذمت کرتے ہیں۔

کئی دہائیوں کی مضبوط حمایت کے بعد، لیبر پارٹی کو مسلمانوں کی حمایت میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ پارٹی لیڈر کیئر اسٹارمر کا اسرائیل نواز موقف ہے۔

واضح رہے جب سے اسرائیل نے غزہ پر اپنی جنگ شروع کی ہے، تقریباً 70 لیبر پارلیمنٹیرینز نے پارٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ 100 کے قریب کونسلرز پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp