پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان رؤف حسن نے کہا ہے انہیں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے رؤف حسن نے کہا کہ ان کے گزشتہ 7 سے 8 ماہ کے بیانات، انٹرویوز اور آرٹیکلز دیکھیں جائیں تو وہ ان میں مسلسل یہی کہہ رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ’شک ہے کہ ہمیں انصاف نہیں ملنا‘، عمران خان کا بھوک ہڑتال کا عندیہ
رؤف حسن نے کہا کہ وہ پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ ان جج صاحبان کو پی ٹی آئی کے مقدمات سسنے سے معذرت کرنی چاہیے، چیف جسٹس آف پاکستان کے بارے میں تو جسٹس گلزار کی سربراہی میں بنے ایک 5 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے جس میں انہوں نے موجودہ چیف جسٹس کو کہا تھا کہ وہ عمران خان یا پی ٹی آئی کے خلاف کسی کیس میں کسی بینچ کا حصہ نہ بنیں، لیکن اس کے باوجود بینچ بنتے رہے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ انہوں نے چند روز پہلے کانفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عمران خان یا پی ٹی آئی کے خلاف کسی کیس میں بینچ کا رکن نہ بننے کی 13 وجوہات پیش کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے جج صاحبان میں اگر کوئی شرم اور حیا ہو تو وہ ایسے کسی بینچ کا حصہ نہیں بنتے لیکن یہ زبردستی ہر بینچ کا حصہ بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ ہی ہمیشہ پی ٹی آئی کی کفیل رہی ہے، وزیردفاع خواجہ آصف
ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ آج عمران خان نے عدالت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت مقدمات کی سماعت کے دوران پسند، ناپسند نہیں ہونی چاہیے، پی ٹی آئی اور میرے مقدمات کے ہر بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیسے آجاتے ہیں، میرے وکلا نے قاضی فائز عیسیٰ کی ہر بینچ میں موجودگی پر اعتراض کیا ہے۔
’عمران خان کا کہنا تھا کہ اب ہمیں یقین ہے کہ ہمیں اب انصاف نہیں ملنا، جسٹس گلزار کے 5 رکنی بینچ نے بھی کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہمارے کیس نہیں سن سکتے، ہمارے وکلا کا خیال ہے کہ ہمیں انصاف نہیں ملے گا، اس لیے ہمارے مقدمات کسی اور کو سننے چاہئیں، قاضی فائز عیسیٰ مستعفی نہیں ہوتے تو بینچ سے علیحدگی اختیار کریں۔‘
’جلسے سے پہلے کارکنوں کو اغوا کیا جارہا ہے‘
رؤف حسن نے کہا کہ کل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا جلسہ ہورہا ہے، ساڑھے 3 مہینے کی جدوجہد کے بعد عدالتی حکم کی بنیاد پر 6 جولائی کو جلسے کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جلسے پہلے ان کی جماعت کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے رکن رضوان احمد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رضوان احمد دفتر آنے کے لیے گھر سے نکلے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ وہ ایف آئی اے کی حراست میں ہیں، آخری بار انہیں گاڑی میں روات کے قریب دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری کا پی ٹی آئی قیادت پر تنقید نہ کرنے کا فیصلہ
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ بہت کوششوں کے بعد گزشتہ روز جلسے کا این او سی مل ملا تھا، رات کو جلسہ گاہ میں کچھ کام شروع کروایا تھا لیکن آج صبح وہاں کام کرنے والے کرین آپریٹر کو اغوا کرلیا گیا۔
ترجمان پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے متعدد اہلکار جلسہ کے مقام پر پی ٹی آئی کارکنوں اور دیگر ورکرز کو کام کرنے سے روک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ریاستی جبر، ظلم اور فسطایت کے سامنے ہم گھٹنے ٹیک دیں تو ایسا نہیں ہوگا، ہم اس ریاستی فسطایت کا مقابلہ جاری رکھیں گے۔
’جلسہ ہر صورت کریں گے‘
انہوں نے کہا کہ حکومت پہلے این او سی دینے پر راضی نہیں تھی، عدالتی احکامات پر این او سی ملا تو اب ریاستی فسطائیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، ریاستی اداروں کے استعمال کے ذریعے کوشش کی جارہی ہے کہ ہم کل وہاں اپنا جلسہ نہ کریں۔
رؤف حسن نے واضح کیا کہ ہم اسٹیج بناسکے یا نہیں، ہمیں بجلی کی سہولت ملے یا نہ ملے، ہم جلسہ کل ہر صورت میں کریں گے، ہم سب کو گرفتار بھی کرلیں ہم تب بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوامی تحریک کا آغاز ہے جسے ہم کسی صورت ختم نہیں ہونے دیں گے، اس کو جاری و ساری رکھیں گے اور آگے بڑھائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی شہباز شریف کی طلب کردہ کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کرے گی، عمران خان
پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے کہا کہ 2 قانونی وجوہات تعصب اور مفادات کے تصادم کی بنیاد پر کوئی بھی فریق زبانی یا تحریری طور پر جج پر اعتراض کرسکتا ہے، جب ایسا اعتراض آجائے تو جج اور متعلقہ بینچ اس اعتراض پر فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس عابد زبیری کے ایک مقدمے میں بطور وکیل انہوں نے جج پر اعتراض کیا تھا جس کو سپریم کورٹ نے مانتے ہوئے اس پر بحث کی تھی اور اس پر فیصلہ آیا تھا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ بینچ یا جج پر اعتراض کرنا فریقین کا قانونی حق ہے لیکن اس پر یہ کہنا کہ ہم آپ کا کیس پاکستان بار کونسل کو بھیج دیں گے مگر اس پر فیصلہ کیے بغیر مقدمے کی سماعت کرنا غیرقانونی ہے۔