ہر سال کی طرح چھٹیوں کا پروگرام بنا تو اس بار وادیِ کاغان کی سیر کرنے کا سوچا۔ ایسا نہ تھا کہ پہلے یہاں جانا نہیں ہوا مگر اس کا ہر بار دل موہ لینے والا حسن، راگ آلاپتا دریائے کنہار اور روح میں سکون اتارتی وادیوں نے مجبور کیا کہ ایک بار پھر اسی طرف رختِ سفر باندھا جائے۔
ہم نے سمجھداری دکھاتے ہوئے عید کے کچھ دن بعد جانے کا پروگرام بنایا تاکہ رش سے بچا جا سکے مگر وہاں پہنچ کہ لگا کہ ایک ہم ہی نہیں، ساری عوام ہی سمجھدار نکلی، اور ہمارے آنے سے پہلے ہی وادی کو کھچا کھچ بھر چکی تھی۔
ایبٹ آباد کی خوبصورت موٹروے سے ہوتے ہوئے بالا کوٹ پہنچے تو دریا کے کنارے وہاں کے مشہور چپل کباب اور نان سے پیٹ کی تواضع کی۔ یہاں کے نلی چپل کباب اتنے ذائقے دار ہیں کہ پشاور اور مردان کو پیچھے چھوڑتے ہیں۔
بالاکوٹ سے ہمارے سفر میں دریائے کنہار بھی شامل ہو گیا جو کسی بچے کی طرح شرارتیں کرتا کبھی ہمارے دائیں تو کبھی بائیں دوڑ رہا تھا۔ حسین نظارے تو ایبٹ آباد سے ہی شروع ہو چکے تھے مگر بالاکوٹ سے نکلتے ہوئے ٹھنڈی ہوائیں ہماری راحت کا سامان کرنے لگیں۔
ان ٹھنڈی ہواؤں اور حسین نظاروں کے سنگ جب سفر آگے بڑھ رہا تھا تو گگن چھوتے سبز چادر اوڑھے پہاڑ میری ساری توجہ کسی مقناطیس کی طرح اپنی جانب کھینچ چکے تھے۔ ان بلند و بانگ پہاڑوں پر بنے اکا دکا گھر جو دور سے بہت چھوٹے معلوم ہوتے مگر ان کی رنگین بارک والی چھتیں میری نظروں کا زاویہ اپنی جانب موڑنے میں کامیاب رہتیں۔
یہ نظارے ایک خیالی سفر کا آغاز ہوتے ہیں؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ حقیقی سفر کے ساتھ ساتھ ہم ایک خیالی سفر بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے یا صرف میرے ساتھ؟ یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر جب ان بڑے بڑے پہاڑوں پر بنے چھوٹے چھوٹے گھر دیکھے تو میرے بھی خیالی سفر کا آغاز ہوا کہ ان گھروں کے مکین یہاں تنہائی میں کیسے زندگی بسر کرتے ہوں گے؟ ان کے تو پڑوسی بھی بہت دود دور بستے ہیں۔ ان کے بچے اسکول جاتے ہوں گے کیا؟ یہ خیال آتے ہی نظریں تیزی سے ادھر ادھر دوڑنے لگیں اور ایک سبز بارک والی تھوڑی بڑی عمارت دیکھتے ہی سکون آیا کہ یہی اسکول ہو گا۔ اسکول کی فکر سے نکلی تو ذہن کے گھوڑے پھر بےلگام ہونے لگے، اب ان کو فکر ستانے لگی کہ یہاں کے مکین مہینے بھر کا راشن کہاں سے لاتے ہوں گے؟
انہی فکروں میں الجھی تھی کہ دریائے کنہار کی دھاڑ نے ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ موجوں کی روانی نے فکروں سے آزاد کرتے ہوئے ہونٹوں پے تبسم بکھیر دیا۔ اس تبسم کی وجہ نام ور سفرناموں کے لکھاری مستنصر حسین تارڑ تھے۔ کنہار کی بےفکر موجوں کو دیکھتے ہی ان کے پڑھے ہوئے سفرنامے یاد آئے۔ ان موجوں میں کبھی اٹھکھیلیاں کرتی کوئی حسینہ نظر آئی تو کہیں کوئی غصیلہ نوجوان۔ جب یہی موجیں پرسکون بہنے لگتیں تو آنکھیں سکون سے خودبخود بند ہو جاتیں۔
برفیلی چوٹیوں والے سرسبز پہاڑ اور ان کے دامن میں بہتا شفاف پانی، گمان ہوتا کہ کسی یورپی ملک میں ہیں مگر جوں ہی گاڑی سڑک پر کسی گڑھے سے گزر کر اچھلتی تو ہوش آتا کہ نہیں یہ پاکستان ہی ہے۔ کاغان میں ڈیم تو بن گیا مگر روڈ کا برا حال کر گیا۔ یوں لگتا جیسے ہم گاڑی میں نہیں بلکہ اونٹ کی سواری پر نکلے تھے۔ غصہ بھی بہت آیا کہ اتنا بڑا ڈیم بنا دیا، ٹنل بنا دی۔ اس روڈ کو بھی ٹھیک کر دیتے تاکہ ہمارا خیالی سفر تو جاری رہتا۔
شام ڈھلے کاغان پہنچے تو رش دیکھ کر دل تھوڑا بجھ سا گیا کہ ہماری سمجھداری بھی کام نہ آئی۔ بمشکل ہوٹل میں ایک کمرہ ملا جس کے دام آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ پھر جب رات کھانے کے لئے بازار کا رخ کیا تو وہاں ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد کھانا ملا، لگتا تھا پورا پاکستان کاغان کی سیر کو نکلا ہے۔ بازار میں پیر رکھنے کو جگہ نہ تھی۔ دل کچھ اداس ہوا مگر دل کو سمجھایا کہ خیر ہے ابھی بہت کچھ ہے لطف اندوز ہونے کو۔
وادی میں بھکاریوں کا رش بہت تھا اور زرا غور کرنے پر لگتا کہ یہ کوئی مقامی لوگ نہ تھے بلکہ خدوخال سے پیشہ ور بھکاری معلوم ہوتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ یہ پیشہ ور گروہ بھی سمجھدار تھے، ان کو پتہ تھا کہ رش کا سیزن ہے تو خوب کاروبار چمکے گا۔ مگر افسوس کہ ان پیشہ وروں کو دیکھتے ہوئے کچھ مقامی بچے بھی ہاتھ پھیلاتے نظر آئے۔
ہم نے رش کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ جھیل سیف الملوک اور بابوسر ٹاپ، جو رش والی جگہیں ہیں، وہاں نہ جایا جائے کیونکہ انکی خوبصورتی تو ویسے بھی انسانی گندگی اور ہوٹلوں نے تباہ کر دی ہے۔ صبح لالازار کی سیر کا سوچا، جیپ لی اور موت کے کنویں کا سفر کرتے جب اپنی منزل پر پہنچے تو نظارے دیکھتے ہی لگا کہ سارے پیسے وصول ہو گئے۔
یہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا اور مشکل راستے کی وجہ سے زیادہ سیاح اس جانب سفر نہیں کرتے جس وجہ سے یہ جگہ بہت صاف ستھری اور پرسکون تھی۔ اگلے دن گیٹی داس میڈوز جانا ہوا۔ ان سرسبز میدانوں میں بہتا صاف شفاف گلیشئرز کا پانی انسان کو زندگی کی ساری فکروں اور پریشانیوں کی قید سے آزاد کر دیتا ہے۔ تین دن ان خوبصورت وادیوں میں گزارنے کے بعد واپسی زرا مشکل لگ رہی تھی مگر جیب کو بھی دیکھنا تھا۔ سو، نہ چاہتے ہوئے گھر واپسی کا قصد کیا اور ان گنت حسین یادیں سمیٹے لوٹ آئے۔