گزشتہ روز 4جولائی کو سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلزکی تشکیل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا 26اپریل کا نوٹیفیکیشن معطل کردیا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ سماعت سے قبل آپس میں بامعنی مشاورت کریں۔
الیکشن ٹربیونل کیا ہوتا ہے؟
انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی شکایات کے تصفیے کے لیے صوبائی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو بطور الیکشن ٹربیونل مقرر کیا جاتا ہے۔ یہ عمل الیکشن کمیشن آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے مکمل ہوتا ہے۔ جس میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، ہائیکورٹ کے ججز کو الیکشن ٹربیونل نامزد کرتے ہیں جن کی تقرری کا نوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن جاری کرتا ہے۔
سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کو اگر ایک لائن میں بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تقرری کس کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن کا یا پھر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا؟
مزید پڑھیں: الیکشن ٹربیونلز کا قیام : الیکشن کمیشن کی حکم امتناع کی استدعا مسترد، معاملہ 3 رکنی کمیٹی کے سپرد
29 مئی کو لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج، جسٹس شاہد کریم نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے نامزد کردہ 8ججز کو الیکشن ٹربیونلز مقرر کرے۔ اس حکمنامے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 219سی آرٹیکل 222بی اور الیکشن ایکٹ کی شق نمبر 140 کے تحت ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو الیکشن ٹربیونلز مقرر کرنے کے عمل میں فوقیت حاصل ہے۔ اس حکمنامے کے تحت لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے 12 جون کو 8 الیکشن ٹربیونلز مقرر کر دیے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی درست نہیں تھا لیکن پارلیمنٹ نے بھی جھک ماری ہے: سینیٹر کامران مرتضٰی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جمیعت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 219 سی میں صاف لکھا ہوا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تقرری الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ اس میں جو الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے مابین بامعنی مشاورت کا ذکر ہے، اس میں ہم مبالغہ آرائی کرتے ہیں حالانکہ یہ الیکشن کمیشن ہی کا اختیار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا لیکن پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں ریٹائرڈ ججز کو الیکشن ٹربیونل مقرر کرنے کے حوالے جو ترمیم کی ہے وہ بھی درست نہیں، یہ تجربہ ہم پہلے بھی کرچکے ہیں اور ناکام ہوا تھا۔ حکومت نے ہائیکورٹ کے فیصلے سے نمٹنے کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔
’اب ایک ریٹائرڈ جج جو 10لاکھ پنشن لیتا ہے، ساتھ میں اسے 10لاکھ تنخواہ بھی دی جائے گی۔ 6مہینے کے لیے وہ مقرر ہوگا اور 3، 4 مہینے وہ ویسے بھی بڑھا لے گا۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے حکومت اپنی مرضی کے الیکشن ٹربیونلز لگا سکے گی۔
اب تو ریٹائرڈ ججز بھی الیکشن ٹربیونل لگ سکتے ہیں: حسن رضا پاشا
پاکستان بار کونسل ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس، جسٹس عالیہ نیلم کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا حکم دیا ہے، ابھی جسٹس عالیہ نیلم کی تقرری کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری ہونے میں کچھ دن باقی ہیں۔ لیکن میرے خیال سے اس وقت لاہور ہائیکورٹ میں 66ججز کے بجائے 36 ججز کام کر رہے ہیں تو چوائس کافی محدود ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن ٹربیونلز کا قیام : الیکشن کمیشن کی حکم امتناع کی استدعا مسترد، معاملہ 3 رکنی کمیٹی کے سپرد
انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے جن ججز کو پہلے بطور ٹربیونل نامزد کیا گیا وہی ججز دوبارہ نامزد ہو جائیں گے اور اب تو حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم بھی منظور کرلی ہے جس کے تحت ریٹائرڈ ججز کو بھی الیکشن ٹربیونلز مقرر کیا جا سکتا ہے۔
جس قانون کے تحت الیکشن ہوا اسی قانون کے تحت ٹربیونلز مقرر ہونے چاہییں: عمران شفیق
سپریم کورٹ کے وکیل عمران شفیق نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اصول کی بات تو یہ ہے کہ جس قانون کے تحت الیکشن ہوئے ہیں اسی قانون کے تحت الیکشن ٹربیونلز لگائے جائیں اور اس میں ریٹائرڈ ججز کے تقرر کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسری بات یہ کہ جن لوگوں پر اعتراض ہے کہ وہ جعلی طور پر جیت کر پارلیمان پہنچے ہیں وہی لوگ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن ٹربیونل کے لیے دیے گئے ناموں پر الیکشن کمیشن نے اعتراض کر دیا تھا۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کا یہ کام نہیں کہ فلاں جج الیکشن ٹربیونل بن سکتا ہے اور فلاں نہیں۔ لوگوں کو الیکشن کمیشن سے شکایات ہیں کہ اس نے انتخابات کا انعقاد شفاف اور منصفانہ انداز میں نہیں کیا اور الیکشن کمیشن ہی الیکشن ٹربیونلز کی تقرری پر اعتراضات اٹھا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ جو قانون سازی کی گئی ہے یہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگی لیکن بنیادی طور پر اس سارے معاملے کے دوران الیکشن ٹربیونل کی تقرری کا معاملہ لٹک جائے گا اور حکومت اس معاملے کو لٹکانا ہی چاہ رہی ہے۔