آزاد کشمیر کے چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے والے 7 افراد برطانوی الیکشن کیسے جیتے؟

جمعہ 5 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برطانوی الیکشن میں پاکستانی اور کشمیری نژاد 6 خواتین سمیت 13 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ کامیاب ہونے والوں میں سے کچھ سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں جبکہ بعض آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان تمام پاکستانی اور کشمیری نژاد امیدواروں کی الیکشن مہم میں فلسطین کی حمایت ایک مشترکہ عنصر کے طور پر دیکھنے کو ملی ہے۔

یہ بھی پڑھیں نومنتخب برطانوی وزیراعظم نے کابینہ کا اعلان کردیا، پاکستانی نژاد خاتون بھی شامل

برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہونے والوں میں سے 7 امیدواروں کا تعلق آزاد کشمیر کے سرحدی ضلع میرپور سے ہے۔ ان میں بیرسٹر ایوب خان، شبانہ محمود، عمران حسین، ناز شاہ، زارا سلطانہ، طاہر علی، اور راجا محمد یاسین خان شامل ہیں۔

یہ ایک اہم سوال ہے کہ میرپور سے تعلق رکھنے والے افراد اتنی بڑی تعداد میں برطانوی پارلیمنٹریرینز کیسے منتخب ہوئے، مگر اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ میرپوری برطانیہ کیوں منتقل ہوئے اور وہاں ان کی آبادی کیسے بڑھی؟

میرپوری منگلا ڈیم کی وجہ سے برطانیہ منتقل ہوئے؟

کہا جاتا ہے کہ میرپور کے لوگ منگلا ڈیم کی تعمیر کے باعث برطانیہ منتقل ہوئے لیکن یہ بات درست نہیں۔ میرپور کے لوگوں کی برطانیہ اور یورپ منتقلی کی تاریخ ایک صدی سے بھی پرانی ہے۔

میرپور کے لوگوں کی برطانیہ میں نقل مکانی کی وجوہات پر تحقیق کرنے والے مانچسٹر یونیورسٹی میں سنٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹیڈیز کے سابق ڈائریکٹر راجر بلارڈ اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ نقل مکانی میرپور کے لوگوں نے کی اور برطانیہ میں جس منظم انداز میں میرپور کے لوگ آباد ہوئے کسی اور جگہ سے تارکین وطن اس کامیابی سے آباد نہیں ہو سکے۔’

پروفیسر راجر کے مطابق ضلع میرپور کی نصف سے زیادہ آبادی بیرون ملک مقیم ہے اور برطانیہ کی پاکستانی آبادی کا دو تہائی حصہ ضلع میرپور کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کا سرحدی علاقہ میرپور لوگوں کی ہجرت سے قبل خطے کے پسماندہ ترین اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے کمزور علاقوں میں سے ایک تھا لیکن اس علاقے سے آنے والے تارکین وطن اعلیٰ بین الاقوامی کاروباری ثابت ہوئے ہیں اور اس کے باشندوں نے اپنے کسی بھی پڑوسی کے مقابلے میں بین الاقوامی سطح پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ضلع میرپور سے برطانیہ اور یورپ میں ہجرت کرنے والوں کی بڑی تعداد 1880 سے 1940 کی دہائی کے اواخر تک کراچی اور ممبئی سے باہر جانے والے جہازوں پر کام کرتی تھی کیونکہ صدیوں سے ان لوگوں کا ذریعہ آمدن کشتیوں اور بحری جہازوں سے منسلک رہا ہے۔

یہ لوگ پنجاب اور بحر ہند کے درمیان پانی کے راستے ہونے والی تجارت کی وجہ سے پہلے کشتی بنانے کا کام کرتے تھے اور 1880 کی دہائی میں جب ریل چلی تو بمبئی اور کراچی تک ان کو رسائی آسان ہو گئی جہاں وہ برطانوی بحری جہازوں میں سرہنگ (جہاز میں ایندھن کوئلہ بھرنے والا) کام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس کام میں آمدنی مقامی لوگوں کی توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ جو لوگ سرہنگ کے کام سے واپس آتے ان کی صحت تو خراب ہوتی لیکن ان کے پاس بڑی رقوم ہوتیں، جن کی دیکھا دیکھی علاقے کے دیگر لوگ بھی اسی کام کے حصول کے لیے کراچی اور ممبئی کا رخ کرنے لگے اور پھر بحری جہازوں پر جانے والے لوگوں نے برطانیہ میں قیام کر کے وہاں ہاکر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے اسٹیم شپس کو ختم کرنا شروع کیا تو میرپوری ملاحوں اور سرہنگوں کو یورپ میں موجود میرپوریوں نے برمنگھم اور بریڈفورڈ کی میونیشن فیکٹریوں میں بھرتی کروایا۔ جہاں سے ایک چین مائیگریشن کا عمل شروع ہوا کیونکہ ویسٹ مڈ لینڈز کی ٹیکسٹائل ملز میں جو معاوضہ پیش کیا جاتا تھا، وہ میرپور کے معیارات سے کہیں بلند تھا۔

اس دوران میرپور کا جو شخص بھی برطانیہ جاتا وہ اپنے خاندان کو بلانے کا آغاز کر دیتا اور یوں وہ برطانیہ کے صنعتی شہروں تک منتقل ہوتے رہے۔ ان کی ایمانداری کی وجہ سے برطانیہ کی امیگریشن اتھارٹیز نے میرپور کے لوگوں کے لیے سفر نسبتاً آسان کیے۔

یہ بھی پڑھیں برطانیہ کی وزیر برائے انصاف شبانہ محمود کون ہیں؟

یہی وجہ تھی کہ 1960 کے ابتدائی سالوں میں برطانیہ کی امیگریشن پابندیوں کا اس علاقے کے لوگوں پر بہت کم اثر ہوا اور منگلا ڈیم بننے کے دوران میرپور کے عوام کو 300 فری واؤچرز دیے گئے۔

روجر بلارڈ کے مطابق میرپور میں 60 فیصد شادیاں فرسٹ کزنز کے درمیان طے پاتی ہیں۔ اسی وجہ سے برطانیہ میں مقیم میرپوری والدین اب بھی اپنی اولاد کی شادیاں قریبی رشتہ داروں کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ کروانے کو ترجیح دیتے ہیں اور ہر سال میرپور کے لگ بھگ 10 ہزار نئے شادی شدہ جوڑے برطانیہ میں داخل ہوتے ہیں اور تقریباً سبھی برٹش پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

کون جیتا اور جیت کی وجہ کیا بنی؟

برطانیہ میں زیادہ تعداد میں آباد ہونے کی وجہ سے میرپور کے عوام نے وہاں کی مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور اب وہ وہاں کی بااثر سیاسی اور سماجی کمیونٹی کے طور پر جانی جاتی ہے۔

بیرسٹر ایوب خان

بیرسٹر ایوب خان نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور لیبر پارٹی کے امیدوار اور سابق پارلیمینٹیرین خالد محمود کو شکست دی۔ خالد محمود 2001 سے برمنگھم کے ایک انتخابی حلقے سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے چلے آ رہے تھے اور وہ سینیئر ترین مسلم پارلیمنٹیرین بھی تھے۔ بیرسٹر ایوب خان کا تعلق ڈڈیال سے ہے۔ ان کی انتخابی مہم کی دلچسپ بات غزہ میں جنگ بندی کی حمایت اور اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کی مذمت تھی۔

زارا سلطانہ

کوونٹری ساوتھ سے لیبر پارٹی کے ٹکٹ سے زارا سلطانہ کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے 20361 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل کنزرویٹو پارٹی کے میٹی ہیون 10160 ووٹ لے پائے۔ زارا سلطانہ کو فلسطین کے حق میں مہم چلانے اور پارلیمنٹ میں فلسطین کے لیے ووٹ دینے کی وجہ سے بھرپور تنقید کا سامنا رہا ہے۔

ناز شاہ

ناز شاہ نے لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیابی حاصل کی وہ 2015 سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتی آ رہی ہیں۔ ناز شاہ کا شمار سب سے زیادہ حمایت رکھنے والے مسلمان اور پاکستان نژاد پارلیمنٹرین کے طور پر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 2015 میں جارج گیلووے کو شکست دی تھی۔ ان کی انتخابی مہم میں بھی فلسطین کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔

شبانہ محمود

لیبر پارٹی کے ٹکٹ سے شبانہ محمود کامیاب ہوئی ہیں، انتخابی مہم کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اگر لیبر پارٹی کی حکومت بنی تو بطور سیکریٹری خارجہ ترجیحی بنیادوں پر غزہ میں امن کے قیام کے لیے کوششیں کریں گے۔ شبانہ محمود انتہائی ممتاز برٹش پاکستانی سیاست دان ہیں اور آکسفورڈ سے سند یافتہ ہیں۔ وہ 2010 سے مسلسل رکن پارلیمںٹ ہیں۔ وہ لیبر پارٹی کی نیشنل کمپین کی کو آرڈی نیٹر رہی ہیں اور لیبر پارٹی کا منشور تیار کرنے والی سر کیئر اسٹارمر کی ٹیم کا حصہ بھی رہی ہیں۔

عمران حسین

عمران حسین لیبر پارٹی کے ٹکٹ سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل یہ لیبر پارٹی کے شیڈو منسٹر برائے نیو ڈیل فار ورکنگ پیپل رہے ہیں اور نومبر 2023 میں لیبر پارٹی کے ایک لیڈر کے فلسطین مخالف بیان کی وجہ سے انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ ضمیر کی آواز کی خاطر میں موجودہ پوزیشن پر کام نہیں کر سکتا، ہر ملک کو اپنے دفاع کاحق حاصل لیکن جنگی جرائم کرنے کا نہیں،غزہ میں فوری جنگ بندی خون ریزی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ عمران حسین پہلی مرتبہ 2015 میں منتخب ہوئے تھے۔

طاہر علی

برمنگھم سے طاہر علی ایک بار پھر اپنی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ طاہر علی نے 2019 میں پہلی مرتبہ 28 ہزار سے زیادہ ووٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔

محمد یاسین

محمد یاسین بریڈفورڈ سے لیبر پارٹی کے ٹکٹ سے کامیاب ہوئے۔ گزشتہ برس انہیں رکن پارلیمنٹ ہوتے ہوئے کینیڈا جاتے ہوئے ایئرپورٹ پر روک دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں مسلم فوبیا کا نشانہ بنایا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp