اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر)، ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) اور غیرسرکاری ادارے ‘مکسڈ مائیگریشن سینٹر’ (ایم ایم سی) کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افریقہ بھر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن سمندر اور خشکی پر طویل سفر میں شدید طرح کے تشدد، استحصال اور موت کا سامنا کررہے ہیں، اقوام متحدہ نے ممالک کے سرحدی حکام سے اپیل کی ہے کہ ان لوگوں کو تحفظ دیا جائے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ خطرناک زمینی راستوں پر سفر کرنے والے ان لوگوں کو پیش آنے والے بدترین حالات کی تفصیل عام طور پر سامنے نہیں آتی، تمام تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو دوران سفر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی پڑھیں : یورپ پہنچنے کی خواہش سے وابستہ ہولناک خطرات، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا
اس رپورٹ کے اعداد و شمار 3 سال میں جمع کیے گئے، جس میں بتایا گیا ہے کہ افریقہ سے یورپ جانے کی کوشش میں زیادہ اموات سمندر کے بجائے صحرائے صحارا میں ہوتی ہیں، اس سفر میں کوئی کسی کا خیال نہیں رکھتا اور زمینی راستے پر اموات میں متواتر اضافہ ہورہا ہے۔
ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) میں خطہ بحیرہ روم کے لیے رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر لارنس ہارٹ کے مطابق وسطی بحیرہ روم کا راستہ مہاجرین کی خطرناک ترین گزرگاہوں میں شمار ہوتا ہے، بہت سے لوگ یہ خطرناک سفر اختیار کرنا نہیں چاہتے لیکن اپنے ممالک میں سیاسی تنازعات اور عدم استحکام کے باعث وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
رواں سال کے 5 مہینوں میں 5 ہزار اموات
افریقہ کے ساحلی خطے اور سوڈان میں نئے تنازعات، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور مشرقی افریقہ و شاخ افریقہ میں نئے اور طویل مدتی ہنگامی حالات، نسل پرستی اور غیرملکیوں سے نفرت جیسے عوامل لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : ایک سال میں کتنے تارکین وطن بحیرہ روم کے پار اسمگل کیے گئے؟
وسطی بحیرہ روم کے آر پار پناہ گزینوں کو مدد اور تحفظ کی فراہمی میں بہت سے مسائل حائل ہیں، جس کی وجہ سے ان لوگوں کو ایک سے دوسری جگہ کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔
مکسڈ مائیگریشن سینٹر (ایم ایم سی) کے ڈائریکٹر بریم فروز کا کہنا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی 5 مہینوں میں 5 ہزار افراد افریقہ سے بحیرہ اوقیانوس کے جزائر کینیری جانے کی کوشش میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
مذکورہ تعداد گزشتہ برس اسی عرصہ کے مقابلے میں 700 فیصد زیادہ ہے، سمندر کے مقابلے میں خشکی پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن عام طور پر ایسے بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
عام طور پر جرائم پیشہ گروہ اور انسانی اسمگلر مہاجرین اور پناہ گزینوں کا استحصال کرتے ہیں تاہم اس میں پولیس، فوج اور سرحدی محافظوں کا کردار بھی ہوتا ہے جو ایسے جرائم کرکے صاف بچ جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : یونان کے قریب سمندر میں پھنسے 81 تارکین وطن کو بچا لیا گیا
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے راستے شہروں سے دور اور دشوار گزار علاقوں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں، اس کا مقصد جنگ زدہ علاقوں اور سرحدی محافظوں سے بچ کر چلنا ہوتا ہے لیکن اس طرح مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
پناہ گزینوں کو جسمانی تشدد، ناجائز حراست، موت، اغوا برائے تاوان، جنسی تشدد، استحصال، غلامی، انسانی اسمگلنگ، جبری مشقت، جسمانی اعضا نکالے جانے، ڈکیتی، اجتماعی ملک بدری اور مرضی کے خلاف آبائی ممالک میں واپس بھیجے جانے کی صورت میں استحصال کا سامنا رہتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مہاجرت کے راستوں پر سفر کرنے والوں کی مدد اور استحصال کا سامنا کرنے والوں کو انصاف کی فراہمی کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس معاملے میں انسانی امداد کی فراہمی کو وسائل کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
ن مسائل کے باوجود ‘یو این ایچ سی آر’، ‘آئی او ایم’ اور این جی اوز سمیت ان کے شراکت داروں اور متعدد حکومتوں نے مہاجرین کو تحفظ دینے، متاثرین کی نشاندہی اور انہیں محفوظ جگہوں پر پہنچانے کے اقدامات کیے ہیں۔