امریکی صدر جوبائیڈن کو عوامی سروے میں بھی پسپائی کا سامنا ہے۔ 86 فیصد ڈیموکریٹس نے کہا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن کو 5 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ووٹ دیں گے جبکہ فروری 2024 میں 93 فیصد ڈیموکریٹس نے کہا تھا کہ وہ بائیڈن کو ووٹ دیں گے۔ سروے میں ایک ہزار 500 رجسٹرڈ رائے دہندگان شامل تھے جن کا 29 جون سے 2 جولائی کے درمیان انٹرویو کیا گیا۔
امریکی اخبار’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے مطابق سروے جائزہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بائیڈن نے ’سی این این‘ پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بحث کے بعد اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں ناقص کارکردگی کو ’خراب واقعہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ ہوا اس کے لیے وہ اکیلے ذمہ دار ہیں۔
صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہوں، بائیڈن
امریکا کے صدر جو بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ 5 نومبر کا صدارتی انتخاب لڑنے اور اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہیں۔
مزید پڑھیں:امریکی صدر جو بائیڈن کا غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کا اعلان
امریکی صدر نے ٹیلی وژن چینل ‘اے بی سی نیوز’ کو انٹرویو میں کہا کہ میں سب سے زیادہ اہل شخص ہوں اور جانتا ہوں کہ کام کیسے کرنا ہے۔ اگر خدا زمین پر آ کر کہے کہ اس دوڑ سے نکل جاؤ تو میں اس سے نکل جاؤں گا، لیکن خدا نیچے نہیں آ رہا۔
بائیڈن نے صدارتی مباحثے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ تھکے ہوئے تھے اور ان کی طبعیت بہت خراب تھی، اس میں کسی کی غلطی نہیں تھی میرا وقت خراب تھا۔
مزید پڑھیں:امریکی صدارتی معرکہ: ٹرمپ سے پہلے مباحثے میں صدر بائیڈن ڈھیر
انٹرویو کے دوران جب صدر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے کبھی اپنا اعصابی ٹیسٹ کروایا ہے؟ جس پر بائیڈن نے جواب دیا کہ وہ عالمی اور قومی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر روز ایک مکمل اعصابی ٹیسٹ سے گزرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا کبھی ان کا سمجھ بوجھ کا ٹیسٹ ہوا ہے؟ بائیڈن کا کہنا تھا کہ کسی نے نہیں کہا کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ ہفتہ قبل صدر بائیڈن اپنے صدارتی حریف ٹرمپ کے ساتھ پہلے صدارتی مباحثے کے دوران جھجھکتے ہوئے دکھائی دیے اور کئی موقعوں پر وہ اپنے خیالات کی ترتیب کھو بیٹھے تھے۔ اس مباحثے میں صدر بائیڈن ٹرمپ پر مسلسل وار کرنے یا اپنے عہدے کے ساڑھے 3 سال کے عرصے کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہے تھے۔
مزید پڑھیں:ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر امریکی صدر جو بائیڈن کی جگہ کون لے سکتا ہے؟
2020 کے صدارتی انتخابات میں بائیڈن کی جیت اور 1956 کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے وہی امیدوار 5 نومبر کو ہونے والے صدارتی مقابلے میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔