انسان جب مکمل طور پر ہار مان چکا ہو اور مایوسی آخری حدوں کو چھو رہی ہو تو اس کا آخری حربہ پھر یہی ہوتا ہے کہ وہ بھوک ہڑتال شروع کردیتا ہے، کیونکہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ کوئی بھی شخص اگر یوں بھوکا رہنے کا اعلان کردے تو اس کے لیے نہ صرف عوام کے دلوں میں ہمدردی بلکہ صاحب اقتدار لوگوں کے دلوں میں ڈر پیدا ہوجاتا ہے کہ خدانخواستہ اگر اسے کچھ ہوگیا تو جوابدہ ہونا پڑسکتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی کچھ روز پہلے اڈیالہ جیل میں اپنے پارٹی رہنماؤں اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دھمکی لگائی کہ اگر ان کو انصاف نہ ملا تو وہ بھوک ہڑتال کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے، کیونکہ مذاکرات 8 فروری سے پہلے ہوسکتے تھے اب نہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ہوئے تو اس سے تو شہباز شریف کی حکومت ہی نہیں رہے گی، جبکہ دوسری طرف سے اسٹیبلشمنٹ بھی یہی سمجھتی ہے کہ 9 مئی کے بعد اب مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے، اور عمران خان جب تک عوامی سطح پر معافی نہیں مانگتے بات چیت ممکن نہیں۔
اس وقت عمران خان کا ہدف نہ شہباز شریف ہیں نہ ہی آصف علی زرداری، ان کا ٹارگٹ اسٹیبلشمنٹ ہے، اور ان کی طرف سے بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی اسٹیبلشمنٹ کو دی گئی ہے کہ اگر انصاف نہ ملا تو وہ بھوک ہڑتال پر چلے جائیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا بھوک ہڑتال کرنا عمر کے اس حصے میں ممکن ہے؟ کیا عمران خان کی صحت اس کی اجازت دے گی؟
عمران خان صرف اسی صورت میں ہی بھوک ہڑتال کا اعلان کرسکتے ہیں کہ اگر انہیں یقین ہوکہ اس سے ان کو فائدہ ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے بھی ان کے اعصاب کا مکمل امتحان لیا جارہا ہے، اگر خان صاحب بھوک ہڑتال پر گئے تو پھر بھی آخری حد تک ان کے اعصاب کا امتحان لیا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان بھوک ہڑتال کا فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر ہی کریں گے، کیونکہ یہ اتنا آسان نہیں خاص طور پر عمران خان جیسے شخص کے لیے جنہوں نے ماضی میں بھی بھوک ہڑتال کی تھی لیکن ان کی حالت غیر ہوگئی تھی اور مجبوراً اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ان کو رہا کرنا پڑا۔
پرویز مشرف دور میں 2007 میں عمران خان کو نقص امن و عامہ ایم پی او کے تحت لاہور سے گرفتار کیا گیا تو ان کو لاہور سے دور جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی جیل میں بھیجا گیا۔ ڈیرہ غازی خان سے اگر آپ واقف ہوں تو وہاں کے کھارے پانی اور موسم کی سختی کسی نئے آدمی کے لیے برداشت کرنا انتہائی مشکل ہے۔ عمران خان نے بھی ایک دو دن وہاں جیل میں گزارنے کے بعد یہ جان لیا کہ جیل میں زیادہ دیر رہنا ان کے لیے صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یہی سوچ کر انہوں نے بھوک ہڑتال پر جانے کا اعلان کردیا۔ بھوک ہڑتال کی وجہ سے ان کی ایک دو روز میں ہی حالت غیر ہوگئی، آنکھیں باہر نکل آئیں اور جیل ڈاکٹر سمیت جیل کے عملے کو بھی جان کے لالے پڑ گئے کہ کہیں خدانخواستہ ان کو کچھ ہوگیا تو ساری ذمہ داری ان پر آئے گی۔
عمران خان بار بار جیل ڈاکٹر کو بلوا کر اس سے پوچھتے کہ کیا چوہدری پرویز الٰہی نے ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے یا نہیں؟ اور پھر ڈاکٹر کے منفی جواب کی وجہ سے عمران خان مزید مایوس ہوجاتے۔ ایسے لگتا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی حکومت بھی ان کے اعصاب کو آزمانا چاہتی تھی کہ یہ کتنے دنوں تک سختیاں اور بھوک ہڑتال برداشت کرسکتے ہیں، لیکن عمران خان کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ زیادہ دیر یہ سب برداشت نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف جیل انتظامیہ اور ڈاکٹر کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ان کے گلے ہی نہ پڑ جائیں اور سارا مدعا ان پر ہی نہیں گرے۔ یہ سوچ کر انتظامیہ اور جیل ڈاکٹر نے لکھ کر بھیجا کہ یہ مزید برداشت نہیں کرسکتے اس لیے ان کو فی الفور رہا کیا جائے۔
پنجاب حکومت کو جب اندازہ ہوا کہ عمران خان اب مزید برداشت نہیں کر پائیں گے تو وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔ ان تمام تر حالات اور واقعات کے چشم دید گواہ جیل کے وہ قیدی ہیں جو ان کی طرح اس وقت سیاسی مقدمات کے سلسلے میں ایم پی او کے تحت گرفتار کیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جو عمران خان کی حالت غیر ہوگئی تھی تو اس کے بعد سب قیدیوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر ان کو جیل سے نہ نکالا گیا تو یہ حکومت کے ذمے لگ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق خان صاحب کی آنکھیں باہر آئی ہوئی تھیں اور یہ بار بار جیل ڈاکٹر سے پوچھتے تھے کہ انہیں کب رہا کیا جائے گا۔
ماضی کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں گے کہ بھوک ہڑتال صرف اسی صورت کی جائے جب ان کو یقین دہانی ہوکہ وہ باہر آجائیں گے۔ 70 برس سے زیادہ عمر میں نہ ان کا جسم زیادہ دیر بھوک برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کی صحت، کیونکہ اس عمر میں ایک بار اگر صحت بگڑ جائے تو پھر سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جبکہ اب حالات بھی 2007 والے نہیں کیونکہ اس بار ان کے جرائم نہایت سنگین ہیں اور ماضی کی طرح اتنی آسانی سے رہائی ملنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پارٹی لیڈران کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ وہ خان صاحب کو بھوک ہڑتال نہ کرنے پر قائل کررہے ہیں۔