8 جولائی 2016 کو پاکستانی قوم شفیق اور ہمدرد انسان سے محروم ہو گئی۔ عبدالستار ایدھی یکم جنوری 1928 میں بھارتی گجرات کے مضافاتی علاقے بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت خاندان سمیت کراچی ہجرت کی اور یہیں مدفون ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے مسائل کا حل سادگی، سچائی، محبت اور ٹائم کی پابندی ہے۔

انسانیت کی خدمت کا جذبہ اپنی والدہ کی تیمارداری اور خدمت سے گھٹی میں پڑا جو فالج کے باعث بسترِ مرگ پر تھیں۔ ایدھی کی والدہ بچپن میں انہیں دو سکے دیا کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ایک آنہ خود استعمال کرنا اور دوسرا کسی ضرورت مند کو دے دینا۔آٹھ برس ماں کی تیمارداری اور خدمت کی، ان کے انتقال کے بعد انسانیت کی خدمت کے سفر پر نکل پڑے۔

ایدھی 1951 میں خدمتِ خلق کا استعارہ بنے جب ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ قدرتی آفات کی تباہ کاریاں ہوں یا کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب کے افراد کا اپنی ہی شامتِ اعمال کا شکار ہونا، ایدھی ہی سب سے پہلےان کی لائف لائن ہوتے تھے۔ پرنم الہ آبادی نے کہا تھا کہ:
ایدھی والوں کے سوا کوئی نہیں تھا اس کا
لوگ مفلس کا جنازہ نہ اٹھانے آئے
ایسی تعفن زدہ لاشوں کو جنہیں رشتے دار بھی ہاتھ نہ لگائیں ایدھی انہیں اپنے ہاتھوں سے غسل دیکر باعزت طریقے پر دفناتے تھے۔ وہ لاوارث بچوں کے ہی نہیں لاوارث لاشوں کے وارث بھی تھے۔ مذہبی تفریق کیے بغیر سب کی مدد اور خدمت میں پیش پیش رہتے، ان کا کہنا تھا کہ انسانیت خود ایک مذہب ہے۔

آئے روز نومولود بچوں کی لاشیں ملتی تھیں، اکثر جانوروں کی کھائی ہوئی، پاکستان بھر میں قائم ایدھی سینٹرز پر جھولے رکھوائے دیے جن پر لکھا ہے ’بچوں کو قتل نہ کریں، جھولے میں ڈال دیں‘۔ ان بچوں کو ایدھی سینٹرز میں پالاپوسا جاتا ہے پھر باقاعدہ لکھت پڑھت کے بعد انہیں بے اولاد والدین کو سونپ دیا جاتا، ایسے ہزاروں بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ ایدھی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ تم جنت میں نہیں جاؤ گے، ایدھی کہتے تھے ’میں تمہاری جنت میں جانا بھی نہیں چاہتا‘۔
سردی ہو یا چلچلاتی دھوپ، ایدھی فاؤنڈیش کے لیے سڑک کنارے کھڑے ہو کر لاکھوں روپے اکٹھے کر لیتے تھے کیونکہ مخیر حضرات اعتبار کرتے تھے کہ اکٹھا ہونے والا چندہ کہاں استعمال ہوگا۔ ایدھی نے کبھی بلند و بانگ دعوے نہیں کیے بلکہ صرف اور صرف عمل کرکے دکھایا اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا۔
ایدھی نے کئی ممالک میں انسانی خدمات انجام دیں، دنیا بھر سے اعزازی اسناد اور ایوارڈز حاصل کیے لیکن عمر بھر سادگی کا پیکر بنے رہے جو وہ تھے ویسے ہی دکھتے بھی تھے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والی گونگی بہری 10 سالہ ’گیتا‘ کی 15 برس تک مذہبی آزادی کے ساتھ دیکھ بھال کی۔اس کے خاندان کو ڈھونڈ کر گیتا کو بھارت بھجوایا گیا۔ اس پر بھارت نے بلقیس ایدھی کو مدر ٹریسا ایوارڈ 2015 سے سرفراز کیا تھا۔
ایدھی کی خدمات کا احاطہ چند سطور میں ممکن ہی نہیں۔ ایدھی اولڈ ہومز، یتیم خانے، مردہ خانے، لنگر خانے، اسکول، جھُولا پراجیکٹ، خواتین کے ہنر مندی سینٹرز، غریب بچیوں کی اجتماعی شادیاں وغیرہ وغیرہ۔ ایدھی ایمبولینس سروس ہی دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری ایمبولینس سروس ہے۔ سن 2000 میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے بھی سرٹیفیکیٹ جاری کیا۔ اس پر زہرا نگاہ کی ایک نظم یاد آتی ہے:
صبح دم جو دیکھا تھا
کیا ہرا بھرا گھر تھا
ڈانٹتی ہوئی بیوی
بھاگتے ہوئے بچے
رسیوں کی بانہوں میں
جھولتے ہوئے کپڑے
بولتے ہوئے برتن
جاگتے ہوئے چولھے
اک طرف کو گڑیا کا
ادھ بنا گھروندا تھا
دور ایک کونے میں
سائیکل کا پہیا تھا
مرغیوں کے ڈربے تھے
کابکیں تھیں، پنجرا تھا
تیس گز کے آنگن میں
سب ہی کچھ تو رکھا تھا
ایک پل میں یہ منظر
کیوں بدل سا جاتا ہے
اک دھواں سا اٹھتا ہے
ہاں مگر دھندلکے میں
کچھ دکھائی دیتا ہے
جانماز کا کونا
جھاڑیوں میں الجھا ہے
صفحۂ کلام پاک
خاک پر لرزتا ہے
ساتھ اور خبروں کے
یہ خبر بھی چھپتی ہے
لوگ اس کو پڑھتے ہیں
باتیں ہوتی رہتی ہیں
کام چلتے رہتے ہیں
ایمبولینس ایدھی کی
بین کرتی آتی ہے
سب جلی کٹی لاشیں
ساتھ لے کے جاتی ہے
صبح تک سبھی لاشیں
دفن کر دی جاتی ہیں
عورتوں کی بچوں کی
بوڑھوں اور جوانوں کی
مسجدوں سے ہوتی ہیں
بارشیں اذانوں کی
لا الہ الا اللہ
لاالہ الا اللہ
محکمہ ڈاک پاکستان قریباً 1650 ڈاک ٹکٹ جاری کرچکا ہے، جن میں سے 250 سے زائد ڈاک ٹکٹس نامور شخصیات پر جاری کی گئی ہیں۔ 14 اگست 2016 کو عبدالستار ایدھی کی خدمات کے اعتراف میں 20 روپے مالیت کے 20 لاکھ ڈاک ٹکٹس جاری کیے گئے تھے۔ ایدھی کی اہلیہ کراچی میں ہوئی ڈاک ٹکٹ کی تقریب رونمائی کی مہمانِ خصوصی تھیں۔
ڈاک ٹکٹ پر نمایاں ایدھی کا اسکیچ معروف مصور پروفیسر سعید اختر (نشانِ امتیاز) نے بنایا تھا جبکہ ڈاک ٹکٹ کو عادل صلاح الدین (ستارہ امتیاز) نے ڈیزائین کیا تھا۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی نے پرنٹ کیا تھا۔
پاکستان اسٹیٹ بینک قائداعظم، علامہ اقبال، سرسید احمد خان، مادرِ ملت فاطمہ جناح، ڈاکٹر رتھ فاؤ اور بے نظیر بھٹو شہید سے منسوب سکہ جاری کرچکا ہے۔ ایدھی کی خدمات کے اعتراف میں 31 مارچ 2017 کو تانبے اور نکل کا بنا 50 روپے مالیت کا یادگاری سکہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ سکے کے ایک جانب 50 روپیہ، گندم کی بالیاں، چاند ستارہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان جبکہ دوسری جانب ’ عہدِ انسانیت عبدالستار ایدھی، درمیان میں ان کی شبیہ اور نچلی جانب 1928 تا 2016 کندہ تھا۔
ایدھی کو خدمتِ خلق کا سبق ایک آنے کے سکے سے ملا تھا، جسے انہوں نے مقصدِ حیات بنالیا تھا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ دکھی انسایت کی خدمت میں صَرف ہوا۔ ماں سے ملنے والا سکہ تا عمر، ان کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی خدمتِ خلق کی دنیا میں ایدھی کا سکہ چلتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔