قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2023 کی منظوری دے دی ہے، جس کے مطابق سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز پر مشتمل کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائے گا۔
ترمیم سے کیا سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں کیا تبدیلیاں متوقع ہیں؟
منظور کردہ بل کے مطابق آئین کے ارٹیکل 184 تین کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر تین یا اس سے زائد ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے گا۔
آئین اور قانون سے متعلق مقدمات میں بینچ کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جا سکے ، جسے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
ہنگامی یا عبوری ریلیف کی لئے کیسز درخواست دینے کے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
’زیر التوا مقدمات میں بھی اپیل کا حق ہو گا۔ فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔‘
ترمیمی بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں
گذشتہ روز قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2023 کو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
چوہدری بشیر ورک کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں مذکورہ ترمیمی بل 2023 کا جائزہ لیا گیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ بل بار کونسلز اور شراکت داروں کا دیرینہ مطالبہ تھا جس کا مقصد اعلٰی ترین عدالت میں شفاف کاروائی کو یقینی بنانا ہے۔
’کل قومی اسمبلی نے کہا کہ کوئی ایسا قانون نہ بنائیں جس کو چیلنج کیا جاسکے۔‘
وزیر قانون کے مطابق بار کونسلز کا تقاضا تھا کہ 184 تین کے بے دریغ استعمال روکا جائے۔ پہلے اپیل کے حق سے افراد محروم تھے، اسے بل میں شامل کیا گیا ہے۔ اہم نوعیت کے کیسز کی چھ چھ ماہ سماعت نہیں ہوتی۔
’وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ اب اس پر قانون سازی کرے۔‘
نفیسہ شاہ کے سوالات
پیپلز پارٹی کی رکن نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ آئے دن از خود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاہم اس ضمن میں کچھ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کل سو موٹو کے ذریعہ اس بل کو ختم نہ کر دیا جائے۔
نفیسہ شاہ کے مطابق اسی طرح اس مجوزہ قانون سازی کے وقت پر بھی سوال اٹھ رہا ہے۔’سوال ہے کہ 184 تھری پر کیا آئینی ترمیم کرنا ہو گی یا سادہ قانون سازی کے ذریعہ معاملہ حل ہو سکتا ہے؟‘
وزیر قانون کے جوابات
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق 184تھری کا بے دریغ استعمال 2007-8 سے شروع ہوا لیکن افتخار چوہدری کے بعد تین ججز نے از خود نوٹس لینے سے اجتناب کیا۔ تاہم ثاقب نثار نے از خود نوٹس کا بے دریغ استعمال کیا۔
’آواز اٹھی کہ ون مین شو نہیں ہونا چاہیے۔ حالیہ دنوں میں دو ججز کا بھی اس سے متعلق فیصلہ آ چکا ہے۔ کہا گیا کہ پارلیمنٹ اس پر قانون متعارف کرائے۔ عدالت کے سامنے معاملہ جاتا ہے تو رد عمل آئے گا۔
’عدلیہ کی آزادی کی بات بار سے اٹھتی ہے جس کے دو گروپوں نے اس بل کی تعریف کی ہے۔‘
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ حامد خان نے بھی بل کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ادارے میں استحکام آئے گا۔
’بل میں تجویز کردہ کمیٹی معاملے کو ریگولیٹ کرے گی۔ ابھی دو سال سے آپ کو دو سینیر ججز کسی بینچ میں نظر نہیں آئے۔‘
بل پر بحث، جائزہ اور منظوری
قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اپنی آج کے اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2023 کے مندرجات پر درکار ضروری بحث اور جائزے کے بعد بل کی کثرتِ رائے سے منظوری دے دی ہے۔