سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

منگل 9 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ تمام فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے، فیصلہ سنانے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے، فیصلہ کب سنایا جائے گا ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔

 سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کی۔ سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔ فل کورٹ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔

2018 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ وہی کچھ ہوا، جو آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے؛ جسٹس اطہر من اللہ

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ باپ پارٹی نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے لیے کوئی فہرستیں نہیں دی تھیں لیکن ان کو مخصوص نشستیں دی گئیں۔ 51(6) کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے فہرستیں بعد میں بھی دی جا سکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے پی ٹی آئی نظریاتی کا سرٹیفیکیٹ جمع کرایا، سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، خود کو پاکستان تحریک انصاف بھی کہتے ہیں، آپ کونسی جماعت میں شامل ہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ راجا صاحب آپ سے بھی سچ نہیں بولا جا رہا، 2018 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ وہی کچھ ہوا، جو آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

مزید پڑھیں:پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کروا لیتی تو مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہی نہ ہوتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، جسٹس اطہر من اللہ

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ واپس بھی لے لیا گیا تھا، ثابت کرنا چاہ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اپنا ہی ریکارڈ دبانے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 13 جنوری کا ڈیکلریشن آپ نے تحریک انصاف نظریاتی کا ظاہر کیا۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود کو ایک پارٹی ظاہر کر رہی ہے، کسی زمانے میں ادارے ایک باڈی سمجھے جاتے تھے، اب تو الیکشن کمیشن بھی اپنا کیس جیتنے آئی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان اکرم راجا سے پوچھا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ ٹھیک سنی اتحاد کونسل میں گئے تھے؟سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جی بالکل ٹھیک، الیکشن کمیشن نے ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا تو ہم پی ٹی آئی میں نہیں جا سکتے تھے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ سلمان اکرم راجا صاحب آپ کا یہ پوائنٹ فیصل صدیقی کا کیس ختم نہیں کر رہا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سنی اتحادکونسل کے علاوہ کسی پارٹی میں شامل کونے کی کوئی آپشن نہیں تھی، اس سے پہلے جو ہوا وہ الیکشن کمیشن کی غلطی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوچ کر جواب دیں کیا پی ٹی آئی کو یہ نشستیں واپس نہیں چاہییں؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر عدالت آئینی تشریح سے ایسے نتیجے پر پہنچے تو مجھے انکار نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا۔

مزید پڑھیں:سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا کیس: جمہوریت کی بات کرنی ہے لیکن انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرانا، چیف جسٹس

الیکشن کمیشن کی شفافیت کا معاملہ ہے، جسٹس اطہر من اللہ

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پوری دستاویزات عدالت میں جمع نہیں کرائیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میں کنفیوژ ہوں آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ میں پی ٹی آئی وویمن ونگ کی صدر کنول شوذب اور پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں، الیکشن کمیشن میرے کاغذاتِ نامزدگی دکھائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جمع کروائے گئے ریکارڈ کو گوہر علی خان نے نہیں مانا، گوہر علی خان نے کہا الیکشن کمیشن نے مکمل ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع نہیں کروایا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ہم کنول شوذب کا کیس سن رہے ہیں نا کہ آپ کا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن میرے کاغذاتِ نامزدگی دکھائے اس لئے بات کر رہا ہوں، الیکشن کمیشن نے میرا ٹکٹ کیوں نہیں دکھایا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، الیکشن کمیشن کی شفافیت کا معاملہ ہے، اگر وہ ہم سے دستاویزات چھپا سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مجھے وہ ٹکٹ واپس کر رہے تھے، میں نے واپس لینے سے انکار کیا اور ان سے رسید لی۔

آپ کیوں کہہ نہیں رہے کہ آپ کو دوسرے نشانات کے لیے مجبور کیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ

فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کو ٹاور ملنا چاہیے تھا، حامد رضا کو صرف اپنی پارٹی کا نشان ملنا چاہیے تھا۔ الیکشن کمیشن نے ٹاور کا نشان نہیں دیا، ہم نے تو مانگا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا حامد رضا نے کیا سنی اتحاد کونسل سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ جمع کروایا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ حامد رضا نے تحریک انصاف سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ جمع کروایا۔ جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ آپ نے سنی اتحاد کونسل سے انتخابات لڑنے تھے تو پی ٹی آئی نظریاتی سے کیوں ڈیکلریشن دیا، آپ غلطی پر ہیں کیونکہ کاغذات نامزدگی آپ نے جمع کروائے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ کون رکن اسمبلی آزاد ہے کون کس جماعت میں گیا یہ تفصیلات الیکشن کمیشن جاری کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے 13 جنوری کو انتخابی نشان کے حوالے سے حکم جاری کیا، الیکشن کمیشن نے کہا پارٹی وابستگی کے بیان حلفی کے خلاف کسی دوسری جماعت کا نشان نہیں مل سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن تسلیم کر رہا ہے کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرنے والا کوئی اور جماعت جوائن نہیں کر سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ یہ کیوں کہہ نہیں رہے کہ آپ کو دوسرے نشانات کے لیے مجبور کیا گیا۔ فیصل صدیقی کا جواب الجواب مکمل ہوگیا۔ کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا روسٹرم پر آ گئے۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے فارمولا طلب کرلیا، پُرامید ہیں مخصوص نشستیں ہمیں ہی ملیں گی، بیرسٹر گوہر خان

آپ شعر و شاعری کو چھوڑیے کیس پر آئیے، چیف جسٹس

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ کیا ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ آزاد امیدواروں نے کیسے پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی؟ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کو آزاد امیدواروں کی شمولیت کے حوالے سے بتانا ہوگا، آزاد امیدوار کی بھی مرضی شامل ہونی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کا ممبر ہے تو اسی سیاسی جماعت کا نشان اسے ملنا چاہیے۔ کسی سیاسی جماعت کو چھوڑے بغیر نئی جماعت میں شمولیت نہیں ہو سکتی، جسٹس عرفان سعادت نے مفت کی بات کی اس پہ غالب کا شعر ہے، مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟ جسٹس عرفان سعادت نے ٹوکا کہ میں نے مفت نہیں بونس کی بات کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ شعر و شاعری کو چھوڑیے کیس پر آئیے۔ فیصل صدیقی کا جواب الجواب مکمل ہوگیا۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کو طول دیا جا رہا ہے، شبلی فراز

 الیکشن کمیشن پر بھی سوالات اٹھے تھے، کیا خاموش رہیں؟ عوام کا حق پامال ہونے دیں؟ جسٹس اطہرمن اللہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کے دلائل مان لیتے ہیں تو مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو مل جائیں گی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملیں گی جو پارلیمنٹ میں موجود ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ووٹ کے حق پر کوئی بات نہیں کر رہا، عوام نے ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ووٹ دیا۔ انتخابات کو شفاف بنانا ضروری ہے، صورتحال کے مطابق ایک بڑی سیاسی جماعت کو ووٹ ملا جس کو انتخابی عمل سے نکال دیا گیا، بات سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کے حق کی ہے۔2018  میں بھی انتخابات پر سنجیدہ سوالات اٹھے تھے۔ الیکشن کمیشن پر بھی سوالات اٹھے تھے، کیا خاموش رہیں؟ عوام کا حق پامال ہونے دیں؟

اگر ہم آپ کے دلائل مان لیں تو آپ کا کیس ہی نہیں، چیف جسٹس

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کیا 18 جنرل سیٹیں جیتنے والی کو 30 مخصوص نشستیں ملنی چاہیے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ کی لاجک کے مطابق آپ کو تو پھر صفر سیٹ ملنی چاہیے کیونکہ آپ کوئی سیٹ نہیں جیتے۔ آپ تحریک انصاف کے کیس پر دلائل دے رہے ہیں، آپ سب باتیں اپنے خلاف کر رہے ہیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ جنہیں آزاد امیدوار کہہ رہے وہ آزاد امیدوار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم آپ کے دلائل مان لیں تو آپ کا کیس ہی نہیں، آپ سمجھ جائیں گے جلد۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کہنا چاہیے تھا کہ آپ سنی اتحاد کونسل جوائن نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے کوئی پارلیمانی سیٹ نہیں جاتی۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب آپ کی پارٹی کو تو بونس مل گیا، 90/95 لوگ الیکشن جیت کر آپ کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کو یہ کہنا چاہیئے کہ اس بونس کا آپ کی پارٹی کو فائیدہ نہیں ہوا؟

2018 کے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے کیا ہم وہ غلطی پھر سے دہرائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ

فیصل صدیقی نے کہا کہ 2024 میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں 30 مخصوص نشستیں دی گئیں، قومی اسمبلی میں خیبرپختونخوا سے ن لیگ کو 2 سیٹوں کے عوض 5 مخصوص نشستیں ملیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا منشا لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ذریعے سے حکومت ہے۔ ووٹنگ کے ذریعے سے اپنے نمائندے منتخب کرنا لوگوں کا حق ہے۔ 2018 کے انتخابات کی شفافیت پر درست سوال اٹھائے گئے۔ لیکن کیا ہم وہ غلطی پھر سے دہرائیں گے؟

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ کیا ہوسکتا ہے؟ چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کی وی نیوز سے گفتگو

متناسب نمائندگی کے حساب سے تو سنی اتحاد کونسل کو زیرو نشست ملنی چاہییے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ آئین کے ٹیکسٹ پر بات چاہتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی میں آئین کے ٹیکسٹ سے ہی فیصلہ چاہتا ہوں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا، یہ بتائیں کیا ٹیکسٹ میں لکھا ہے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین کے ٹیکسٹ میں ایسا نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جواب الجواب دلائل نہیں دے رہے نئے نکات اٹھا رہے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں انہی نکات پر بات کر رہا ہوں جو بار بار یہاں اٹھائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار پی ٹی آئی کی طرف سے بات کرنے لگتے ہیں آپ سنی اتحاد کونسل پر رہیں۔ متناسب نمائندگی کے حساب سے تو سنی اتحاد کونسل کو زیرو نشست ملنی چاہئے، آپ کی تو عام انتخابات میں زیرو نشست تھی۔

یعنی 2018 میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی پارٹی باقی صوبوں میں سیٹ لے اور ایک صوبے میں نہ لے تو کیا ہوگا؟ وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے دیگر صوبوں میں سیٹ جیتی لیکن خیبر پختونخوا میں کوئی سیٹ نہیں لی، الیکشن کمیشن کا غیر شفاف رویہ ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ جوڈیشل نوٹس لے؟ اگر نہیں تو ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے کیس لیں تو لے لیتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ 2018 انتخابات پر انحصار نہیں کرے گی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن امتیازی سلوک کر رہا ہے تو سپریم کورٹ دیکھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یعنی 2018 میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ یونانی کہتے تھے اگر دلائل سے بات نہیں کر سکتے تو فرد پر اٹیک کردو۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا یونانی مثال اچھی بات ہے، آئینی بات ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ اچھی بات نہیں لیکن الیکشن کمیشن کی منافقت ظاہر ہے، جمیعت علمائے اسلام ف کو بھی اقلیتوں کی مخصوص نشست دی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جمیعت علمائے اسلام ف نے کہا ہمارے مینی فیسٹو میں ایسا کچھ نہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں جمیعت علمائے اسلام ف کا اقلیتوں کے حوالے سے مینی فیسٹو دکھا دیتا ہوں۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستیں کیس: کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بالکل اڑا دے گی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

باقیوں کو آپ مسلمان سمجھتے ہیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ جمیت علمائے اسلام ف کو نشستیں نہیں ملنی چاہیئں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کیس کے مطابق تو نہیں ملنی چاہیئیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہچ آپ کی پارٹی میں کیا صرف سنیوں کو نشستیں ملتی ہیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ نہیں سر لفظ مسلمان ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ باقیوں کو آپ مسلمان سمجھتے ہیں؟ فیصل صدیقی مسکرا دیے۔

ادارے کی سطح پر الیکشن کمیشن نے منافقت کی، سنی اتحاد کونسل

فیصل صدیقی نے کہا کہ ادارے کی سطح پر الیکشن کمیشن نے منافقت کی، جمیعت علمائے اسلام کے منشور میں اقلیتوں کا ذکر نہیں پھر بھی ان کو اقلیتی نشستیں دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی پارٹی اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہوتا ہے، پارلیمنٹ کے اندر جو فیصلے ہوتے ہیں وہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، ایسے فیصلے سیاسی پارٹی نہیں کرسکتی، پارلیمانی پارٹی پولیٹیکل پارٹی کا فیصلہ ماننے کی پابند نہیں، جیسے وزیراعظم کو ووٹ دینا ہو تو پارلیمانی پارٹی پابند نہیں کہ سیاسی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کرے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کا کیس بلوچستان عوامی پارٹی سے مختلف ہے، جسٹس عرفان سعادت

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی تھا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق مخصوص نشستوں کا فیصلہ چیلنج کیا گیا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کہہ دیتا کہ غلطی ہوگئی، الیکشن کمیشن نے ایسا رویہ اختیار کیا جیسے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق فیصلے کا وجود ہی نہیں۔ جسٹس عرفان سعادت نے پوچھا کہ کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا لیکن سیٹ نہیں جیتی۔ اس پر جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ کا کیس مختلف ہے، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، ابھی دلائل دیں لیکن بعد میں تفصیلی جواب دیں۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں کا کیس: فیصلہ دینے والا بینچ کہہ رہا ہے الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کی، جسٹس اطہر من اللہ

’باپ پارٹی‘ نام کتنا عجیب ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بھول جائیں الیکشن کمیشن نے کیا کہا؟ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے مطابق تھا؟ ’باپ پارٹی‘ نام کتنا عجیب ہے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا تھا، اس بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا کیس مختلف ہے۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستیں کیس: کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر آئینی تشریح کی سپریم کورٹ توثیق کر دے؟ جسٹس اطہر من اللہ

بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن 3 مخصوص نشستیں ملیں، وکیل سنی اتحاد کونسل

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ مختصر رہوں گا، 15 منٹ میں جواب الجواب مکمل کروں گا۔ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 2018 میں اپنی ذمہ داری شفاف طریقہ سے ادا کی یا نہیں، ثابت کروں گا الیکشن کمیشن نے اپنی زمہ داری مکمل نہیں کی۔ مؤقف اپنا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن 3 مخصوص نشستیں ملیں۔ الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کروایا۔ الیکشن کمیشن کے سامنے معاملہ سپریم کورٹ سے پہلے بھی لے کر جایا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن اپنے ہی دستاویزات کی نفی کر رہا ہے، کیا یہ بے ایمانی نہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp