ہمارے ایک دوست نےکسی زمانے میں احمد ندیم قاسمی صاحب کو’ فنون‘ کے لیے اپنی تخلیقات ارسال کیں۔ قاسمی صاحب کی جانب سے کچھ عرصہ بعد حسبِ معمول ایک جوابی خط آیا جس میں معذرت کے ساتھ اس دوست کے کلام کے ناقابل اشاعت ہونے کے بارے میں اطلاع تھی اور ساتھ یہ حوصلہ افزائی بھی کئی گئی کہ تھوڑی اور محنت کریں توآئندہ شائع ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس نوجوان دوست کویہ بات ناگوار گزری۔ اس نے قاسمی صاحب کو ناقابل اشاعت قسم کا جواب لکھا، جس کا ظاہرہے قاسمی صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔
آج یہ واقعہ یاد آتا ہے تو سوچتا ہوں قاسمی صاحب کتنے کشادہ ظرف انسان تھے۔ کیسی، کیسی تخلیقات انھیں پڑھنا پڑتی تھیں اوراپنے مشوروں پرلوگوں کا کیسا کیسا ردعمل سہنا پڑتا ہو گا۔
اب توبہت کچھ بدل چکا ہے۔ آج کے دور میں جوبہتر مدیرہیں وہ اپنی مرضی کے تخلیق کاروں سے تخلیقات منگواتے اور چھاپ دیتے ہیں۔ مدیر وں کی دوسری قسم وہ ہے جوموصول ہونے والا سب الم غلم بے چون و چرا شائع کر دیتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ کچھ شعری تخلیقات خارج از وزن بھی ہوتی ہیں۔
لیکن قاسمی صاحب بہت محنت کرتے تھے اور اپنی ادارت کی ذمہ داریوں کوبہت وقت اوراہمیت دیتے تھے۔ اس زمانے میں ادبی پرچے اوراخبارات کے ادبی صفحات دوسروں تک تازہ تخلیقات پہنچانے کا واحد ذریعہ تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب نے فنون کی ادارت فرما کرادب کی واقعی بہت بڑی خدمت کی۔ اردو کو ان جیسا مدیر اب شاید ہی ملے۔ ان کی شخصیت بھی بڑی تھی اور تخلیق کار بھی باکمال تھے۔
قاسمی صاحب کے بارے میں ایک جملہ اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ کثیر الجہت ادبی شخصیت تھے۔ لفظ ’کثیر الجہت ‘، خاص طور پر ادب کے حوالے سے، جتنا قاسمی صاحب کی شخصیت کے لیے درست معلوم ہوتا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شخصیت کے لیے ہو۔ اوریہ سب جہات محض خانہ پری کے لیے نہیں تھیں بلکہ ان کے کام کی ایک ایک جہت اردو ادب کا اہم حوالہ ہے۔ شاعری میں دیکھیں تو غزل اور نظم، دونوں میں انھوں نے بے مثال کام کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ قاسمی صاحب کے کئی اشعار اور نظمیں خاص وعام میں مقبول ہیں۔ وہ جب نعت گوئی کی طرف آئے تو اس میدان میں بھی کمالات دکھائے۔ ان کی ایک نعت تو بہت مقبول ہوئی، اور اردو کی چند معروف ترین نعتوں میں شامل ہے۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیداتیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
ان کے نعتیہ کلام نے بعد کی اردو نعت گوئی پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔
قاسمی صاحب کی خوش بختی اورکمالِ فن دیکھیے کہ انھوں نے وطن کے لیے جو کلام لکھا وہ بھی امر ہو گیا۔ ان کا یہ کلام وطن کے حوالے سے ہر اہم موقع پر بار بار دہرایا جاتا ہے۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
ان کی ایک اور ادبی جہت ان کی افسانہ نگاری ہے۔ ان کےاس کمال کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے جن دنوں افسانے میں اپنی شناخت بنائی وہ سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کازمانہ تھا۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے پندرہ مجموعے شائع ہوئے، جن میں 169 افسانے شامل ہیں۔
ادب میں ان کی خدمات کئی عشروں کو محیط ہیں۔ وہ مجموعی طور پر 50سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ انھوں نے کئی قومی اخبارات کے لیے کالم بھی لکھے۔ ان کالموں کی تعدادبے حساب ہے۔ وہ شاندارنقاد، ترجمہ نگاراورخاکہ نگاربھی تھے۔ ان کے کئی افسانوں کی پی ٹی وی کے لیے ڈرامائی تشکیل ہوئی، جن میں سے کئی ڈرامے کافی مقبول ہوئے۔
ایک اور خوبی جس کا میں تہہ دل سے معترف ہوں، وہ ان کی حق گوئی ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں اور واقعات کتابوں میں محفوظ ہیں۔ انھوں نے اکادمی ادبیات کی کانفرنسوں میں اپنے دو خطبوں کے حوالے سے ایک واقعہ ایک صحافی کو دیے گئےانٹرویو کے دوران خود سنایا۔
‘1980 میں جو کانفرس منعقد ہوئی اس میں مجھے کلیدی خطبہ پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ اس کا موضوع ’’ادیب اور مملکت‘‘ تھا۔ میں نے حق بات کے اعلان کے لئے یہ موقع غنیمت جانا۔ میرے کلیدی خطبے میں مارشل لاء حکومت کی غیر مشروط اور صد فی صد نفی کی گئی تھی۔ اس اجلاس کی صدارت مارشل لاء حکومت کے وزیرِ تعلیم نے کی تھی۔ میں خطبہ پڑھ رہا تھا تو اکادمی کے اْس وقت کے ڈائریکٹر صاحب نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ شخص حکومت کو کھری کھری سْنا رہا ہے تو اْنہوں نے مجھے ٹوکا اور کہا کہ اپنے خطبے کا خلاصہ پڑھیے۔ میں نے عرض کیا میرا خطبہ ہے ہی مختصر اور اس لئے آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیئے۔
پانچ برس بعد 1985ء میں ایک اور اہلِ قلم کانفرنس اسلام آباد ہی میں منعقد ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ زمانہ بھی مارشل لاء ہی کا تھا۔ اس میں بھی مجھے کلیدی خطبہ پڑھنا تھا، سو میں نے پڑھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ایک عجیب سا حادثہ ہوگیا۔ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے میرا یہ مختصر ساخطبہ اکادمی ادبیات کے اس وقت کے چیئرمین کی وساطت سے صدر صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا چنانچہ اْنہوں نے غصے سے بھرا ہوا اپنا ردعمل اپنی افتتاحی تقریر میں ارشاد کر دیا اور ان اہلِ قلم کی ایسی تیسی کردی جو ملکی حالات و واقعات پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ چونکہ میں نے اپنا خطبہ صدر صاحب کی تقریر کے بعد پڑھا تو دوستوں نے یہ سمجھا کہ میں ان کی تقریر کا جواب دے رہا ہوں جبکہ وہ تو مجھے میرے خطبے کا نہایت ناگوار جواب پہلے ہی دے گئے تھے’۔