وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فون ٹیپنگ کے کام کو قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے، 1966 کا قانون 1996 میں ترمیم کے ساتھ پیش کیا گیا، اسی قانون کے تحت کال ریکارڈ ہوتی ہیں، جو اس کا غلط استعمال کرے گا اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین میں جو آزادیاں ہیں وہ کسی صورت سلب نہیں کی جاسکتیں۔ 1996 سے یہ قانون ہے، اس دوران 5حکومتیں آئی ہیں کسی نے اسے نہیں چھیڑا۔
وزیر قانون نے کہا کہ اس قانون میں دیگر ایجنسیوں کو شامل کیا جاتا تو پھر غلط استعمال کا خطرہ تھا۔ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کا سانحہ ہو یا دیگر معاملے اسی قانون کے تحت کال ٹریس ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون میں 18 گریڈ سے اوپر کے افسر کو لگایا جائے گا تاکہ غلط استعمال روکا جاسکے۔ لوگوں کی آزادی اور ذاتی زندگی کا تحفظ لازمی ہوگا، اس قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کےخلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس قانون کے استعمال پر مختلف چیکس ہوسکتے ہیں، اگر اتنا ہی یہ قانون غیر آئینی تھا تو گزشتہ 4 سال میں ہی اسے ختم کردیتے۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ لا انفورسمنٹ ایجنسیز قانون کے تحت کام کرتی ہیں، اس ملک میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوتے رہے، برطانیہ میں بھی اس طرح کے قوانین موجود ہیں۔