محمد خالد اختر کی کہانیاں سننے والی بیٹی

جمعہ 12 جولائی 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ممتاز ادیب محمد خالد اخترکی طبیعت میں ایک فطری معصومیت تھی، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کی طرح خوش ہوتے، غم ہو یا خوشی جذبات دبا کر نہیں رکھتے تھے۔ معروف اسکالر احمد جاوید کے بقول ’معمولی باتیں اور عام سے نظارے اگر ہمارے اندر خوشی اور غم کے اسباب نہیں بنتے تو یہ بھی بڑی خرابی کی بات ہے‘۔ خالد اختر اس خرابی سے مبرا تھے، وہ معمولی باتوں پر خوش ہولیتے اور اداس بھی۔

ہماری اس تحریر کا مرکز باپ بیٹی کا رشتہ ہے جس کے اردگرد چند ضمنی کہانیاں بھی آجاتی ہیں۔ بات ’یاترا‘ سے شروع کرتے ہیں، نامور ادیب اور شاعر محمد سلیم الرحمٰن نے ’ہوائی توانائی‘ پر کتابچے کے شروع میں خالد اختر کے سفر نامے ’یاترا‘ سے ایک اقتباس نقل کیا۔ یہ عام سی بات تھی لیکن اس سے وہ بہت خوش ہوئے اور مصنف کے نام خط میں لکھا: ’ہوائی توانائی‘ میں ’یاترا‘ سے پیراگراف دیکھ کر حیرت ہوئی اور اتنی خوشی کہ پہلے اپنی کسی کتاب کے چھپنے پر بھی نہ ہوئی تھی، سچ کہہ رہا ہوں مبالغہ نہ سمجھیں۔ ’ہوائی توانائی‘ بھی بیٹھے بیٹھے ساری پڑھ ڈالی، ایسی نثر ہمارے سلیم جی کے سوا اور کون لکھے گا‘!

’کراچی ریویو‘ کے گوشہ محمد خالد اختر میں محمد سلیم الرحمٰن کے خطوط میں ’یاترا‘ کا حوالہ جذباتی رخ اختیار کرلیتا ہے۔ یاترا کواکادمی ادبیات نے مولوی عبدالحق ایوارڈ دیا تو انعامی رقم کے مصرف کی بابت سلیم صاحب کو خط میں بتایا: ’اکادمی والوں نے دوہفتے ہوئے 40ہزار کا چیک بھیج دیا (میرے نزدیک لاٹری) بیٹی کی رخصتی چند دنوں میں ہونے والی ہے اور یہ رقم میں نے اس کو دے دی ہے۔ میں اور بھلا کیا کرتا‘۔

ایک اور خط میں لکھتے ہیں: ’میری اکلوتی بیٹی کی رخصتی اس ماہ کی 13 تاریخ کو ہوئی اور اس کے چلے جانے سے طبیعت بے حد مضمحل رہنے لگی ہے، بہر حال اس جدائی کو برداشت کرنا ہی ہوگا‘۔

بیٹی کے لیے باپ کے گھر کو ایسے ہی تو چڑیوں کا چنبہ نہیں کہا گیا جہاں سے انہوں نے لمبی اڈاری بھرنی ہوتی ہے۔ یہ جدائی دونوں پر شاق گزرتی ہے لیکن وہ جانتے ہیں یہ ناگزیر ہے۔ اس ادراک کے ساتھ دونوں باپ بیٹی نے حالِ دل مؤثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔

سید کاشف رضا کے زیر ادارت ’کراچی ریویو‘ میں محمد خالد اختر کے بارے میں کئی عمدہ تحریریں ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے سارہ اختر کا مضمون ’میرے پیارے بابا‘ سب سے زیادہ اچھا لگا۔

 

سارہ اختر نے باپ کے انتقال کے بیس برس بعد بیٹی کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا لیکن خالد اختر عشروں پہلے قارئین کو دختر نیک اختر سے متعارف کروا چکے تھے۔ ’مکاتیب خضر‘ میں سارہ کے نام خط کی سطرسطر سے وہ محبت عیاں ہوتی ہے جو باپ کے دل میں بیٹی کے لیے تھی: ’اپنے بابا کے گوشۂ جگر کے صدقے، اس کی بلائیں اپنے سر!‘

خط کے آخر میں لکھا: تمھارا نوکر بابا۔

یہ وہ خط ہے کہ بقول سارہ اختر ’جسے پڑھ کر میں آج بھی رو دیتی ہوں۔‘ وحید مراد کے نام فرضی خط میں بھی سارہ کا ذکر ہے جس میں وہ ’مستانہ ماہی‘ فلم دیکھنے کے سلسلے میں بیٹی کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بات کرتے ہیں۔

خالد اختر نے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی کی کتاب’کپاس کا پھول‘ پر تبصرے میں بتایا کہ وہ اپنی 8سالہ بچی کو ہر رات سونے سے پہلے انگریزی یا اردو کی کسی کتاب سے کہانی سناتے ہیں۔ ایک دفعہ بیٹی کے لیے نئی کتاب خریدنے میں کوتاہی ہوئی تو ’کپاس کا پھول‘ سے 2کہانیاں ’گڑیا‘ اور ’ماسی گل بانو‘ انہیں سنائیں۔ کہانیوں کی مشتاق سارہ کو یہ اچھی لگیں، خاص طور پر اول الذکر کہانی، جسے سارہ نے 3بار سنا۔ ’اس نے کھلی کھلی آنکھوں سے وہ کہانی سنی اور مکمل فریفتگی کے ساتھ‘۔

’کپاس کا پھول‘ پر خالد اختر کے تبصرے کی آخری لائن ہے: ’میری چھوٹی لڑکی سارہ بھی ان کہانیوں سے محبت کرتی ہے‘۔

مجھے یقین ہے خالد اختر نے روایتی انکسار سے کام لیتے ہوئے بیٹی کو یہ نہیں بتایا ہوگا کہ جن احمد ندیم قاسمی کے افسانے اسے بھائے ہیں انہیں افسانہ نگاری کی راہ پر میں نے ڈالا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قاسمی صاحب کی عمر 19برس تھی۔

انہوں نے پہلی کتاب ’چوپال‘ میں ’خالد‘! کے عنوان سے تحریر میں دوست کے خطوں سے ٹکڑے نقل کرنے کے بعد لکھا: ’خالد! میرے افسانے تمہارے ان خطوط سے اثر پذیر ہوئے ہیں اور میں نے کالج کے حسین دنوں میں تم سے وعدہ بھی کیا تھا چنانچہ میری اولین اور اس لیے عزیز ترین تصنیف تمہارے نام معنون ہے‘۔

دوست کی پہلی کتاب اور پھر اس کا انتساب اپنے نام ہونے نے خالد اختر کی خوشی دو بالا کردی۔ وہ ’چوپال‘ کو سرہانے تلے رکھ کر سونے لگے۔

خالد اختر نے سارہ کو ’ودرنگ ہائیٹس‘ پڑھنے کے واسطے لاکر دی جسے سمجھنے میں دشواری ہوئی تو وہ بھاگی بھاگی بابا کے پاس آئیں تو انہوں نے کہا ’بار بار پڑھو تو سمجھ آنے لگے گی، اور اسے محسوس کرو‘۔

دیکھیے کیسے غیر محسوس طریقے سے جتلایا کہ پڑھنا ایک بات ہے اور اسے محسوس کرنا دوسری بات۔ بیٹی کا پہلا مضمون دیکھنے کے بعد خالد اختر نے اسے جو نکتہ باور کروایا وہ نو آموز لکھنے والوں کے لیے رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے: ’یہ زبردستی کے الفاظ تمہاری تحریر کے بہاؤ کو روک رہے ہیں‘۔

کہانیاں سنانے والا باپ اب خود ایک کہانی بن گیا ہے، قاسمی کہانیاں جس وقت سارہ اختر نے سنیں اس وقت ان کی عمر 8برس تھی، جس کے تقریباً 50سال بعد انہوں نے مضمون میں اپنے بابا سے کہانیاں سننے کا بڑی محبت سے ذکر کیا اور بتایا کہ اس کا انہیں استاد کی حیثیت سے کس قدر فائدہ ہوا ہے۔

سارہ اختر لکھتی ہیں: ’ہر رات میں اسٹوری ٹائم کا انتظار کرتی، جب آپ مجھے مزے مزے کی کہانیاں سناتے۔ آپ کے الفاظ کا چناؤ اتنا انوکھا اور پرلطف ہوتا کہ دل چاہتا سنتی ہی جاؤں اور کہانی ختم نہ ہو، آپ سے میں نے کہانی سنانا سیکھا۔ بابا آپ نے مجھے کرداروں کے اندر اترنا سکھایا۔ ان کے ساتھ ان کا دکھ درد، خوشی بانٹنا سکھایا۔ ادب سے یہی لگاؤ میری روزی روٹی کا ذریعہ بنا اور میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئی‘۔

سارہ اختر کے علم میں نہ جانے یہ بات ہے یا نہیں کہ محمد خالد اختر نے 30سال پہلے ہمدمِ دیرینہ محمد کاظم کو خط میں کس قدر مسرت سے یہ بات بتائی تھی: ’سارہ، تمھاری پیاری بیٹی ہمارے گھر کے سامنے ڈیفنس ہائی اسکول میں پڑھاتی ہے۔ پچھلے جمعے ڈان کے میگزین میں اس کا ایک خوبصورت مضمون قدرتی مناظر پر چھپا۔ اس کے اچھوتے خیالات نے مجھے حیران کردیا‘۔

خالد اختر نے اشفاق احمد ورک کے نام خط میں سارہ کی ’فنون‘ میں ایک تحریر کا حوالہ بھی دیا ہے جسے احمد ندیم قاسمی نے سراہا تھا۔ خالد اختر نے محمد کاظم کو بیٹے کے بارے میں بڑی خوشی سے بتایا: ’تمھارا بھتیجا ہارون ماشااللہ اچھا لائق نکلا ہے۔ اس کی تحریریں یہاں انگریزی میں ڈان میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتی ہیں‘۔

سید کاشف رضا کا کہنا ہے کہ ہارون کے مضامین کے تراشے وہ سینت کر رکھتے اور انہیں بڑے فخر سے دکھایا کرتے تھے۔ بیٹے کا ایک مضمون ممتاز فکشن نگار نیئر مسعود کو لکھنؤ بھیجا جسے پڑھ کو انہوں نے لکھا: ’ہارون خالد صاحب کا مضمون پڑھ کر یقین نہیں آیا کہ یہ آپ کے سوا کسی اور نے لکھا ہے۔ لیکن یہ معاملہ حسِ مزاح کا ہے جو باپ سے بیٹے کو بہ خوبی منتقل ہوسکتی ہے۔ اس لیے یقین آگیا اور بہت خوشی ہوئی‘۔

خالد اختر صرف اپنے بچوں کی لکھتوں کو ہی نہیں پھیلاتے تھے، لکھاری دوست احباب کی نگارشات کا بھی خوب چرچا کرتے۔ اپنے مطالعے میں دوسروں کو شریک کرنا بھی ان کا شیوہ تھا۔ زینت حسام کے بقول ’کتنے ہی نت نئے مصنف انہوں نے دریافت کیے اور ان کی حیرت انگیز اور خوبصورت تحریریں مجھے اور دوسرے دوستوں کو پڑھنے کو دیں۔ انہیں اپنی محبوب چیزوں کو اپنے دوستوں سے شئیر کرنے میں بہت لطف آتا تھا۔ ہم میں سے کسی کی یا ان کے بیٹے ہارون کی کوئی چیز چھپتی تو وہ فون کرکے اپنے تمام دوستوں کو اطلاع دیتے اور اس کا تراشہ پڑھنے کو دیتے‘۔

کہانیاں سننے اور پڑھنے سے سارہ کو تدریس میں فائدہ ہوا تو ہارون کے لکھاری بننے کی بنیاد پڑی۔ خالد اختر جو بیٹے کے اخباری مضامین پر اس قدر نازاں تھے وہ انگریزی فکشن نگار کے طور ہارون خالد کی پذیرائی دیکھتے تو نہ جانے ان کی خوشی کا کیا عالم ہوتا۔

ہارون خالد اختر والد کے ساتھ جڑی بچپن کی یادیں کریدتے ہیں تو ان کے ساتھ اس چہل قدمی کو یاد کرتے ہیں جس کا رخ کتابوں کی دکان کی طرف ہوتا تھا۔ ان میں مال روڈ لاہور پر کتابوں کی سب سے بڑی دکان فیروز سنز بھی شامل تھی، جہاں سے وہ جتنی چاہیں کتابیں خرید سکتے تھے۔ سینما میں فلم دیکھنے جاتے تب بھی فیروز سنز پر حاضری ضرور دی جاتی۔ شادمان میں بک وے سے بھی خالد اختر بچوں کو کتابیں دلاتے۔

خالد اختر مطالعے کے جویا تھے، لاہور میں گزرے جوانی کےایام ہوں یا نوکری کے ماہ وسال، ان کی مطالعاتی زندگی میں انارکلی بازار کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ لا کالج میں طالب علمی کے دور میں ایک شام وہ انارکلی میں گھوم رہے تھے کہ کسی دوست سے ’ادب لطیف‘ میں کرشن چندر کی کہانی ’دو فرلانگ لمبی سڑک‘ کی اشاعت کی خبر سن کر ان کی کیفیت یہ ہوئی۔ ’میرا دل آنے والی خوشی کے خیال سے ایک پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا تھا‘۔

 

استنبول میں جوزف کانریڈ کی کتابوں کا سیٹ دیکھ کر انہیں 55 برس پہلے کی بات یاد آئی جب ایسا ہی سیٹ انہوں نے انارکلی میں راما کرشنا اینڈ سنز کے قریب پرانی کتابیں بیچنے والے ایک ہندو کے خوانچے پر دیکھا تھا، قیمت اس کی 100 روپے تھی اور اتنے میں خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔ گھر سے ماہانہ 50روپے تو ملتے تھے، اس زمانے میں کونریڈ سے واقفیت نہیں تھی۔ البتہ محبوب مصنف رابرٹ لوئی اسٹیونسن کا سیٹ ہوتا تو ان کے بقول ’جوں توں، کوٹ بوٹ بیچ کر اسے حاصل کر لیتا‘۔

خالد اختر کتابوں کے رسیا تھے، ان کے لیے پرانی کتابوں کی جستجو ایک وسیع تر مفہوم رکھتی تھی: ’سیکنڈ ہینڈ کتابوں کو سونگھنا، ان کے ورق الٹنا، ان کو پرکھنا، میرے لیے سب غموں اور دکھوں کا تریاق ہے۔ کیسے کیسے خزانے آدمی کو یہاں ملتے ہیں‘۔

اس عمل میں سارہ نے بھی اپنے بابا کا ساتھ دیا: ’ہم پھر انارکلی میں داخل ہوئے، وہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر زمین پر کتابیں سجائے بہت سے کتب فروش بیٹھے تھے۔ آپ اپنی پسند کی کتابیں دیکھنے میں مصروف ہوئے اور میں جنوں پریوں کی تصویروں والی کہانیاں ڈھونڈنے لگی‘۔

خالد اختر کے انارکلی بازار سے کتابیں خریدنے کا ذکر بڑے بیٹے منصور خالد نے بھی کیا ہے، وہ کئی دفعہ والد کے ہم رکاب ہوئے۔ انارکلی میں احمد ندیم قاسمی کے ادبی رسالے ’فنون‘ کے دفتر میں بھی ان کا جانا رہتا تھا۔

’فنون‘ نے خالد اختر کو رائٹر کی حیثیت سے نئی زندگی دی، کڑے وقت میں آگے بڑھنے کی راہ سجھائی، ان کے بقول ’میری صحت اسی طرح خراب تھی، میرے معدے کا نظام ہضم درست نہ ہوا۔ مگر ندیم کے ’فنون‘ نے مجھے منزل بہ منزل گرنے اور اپنے فطری ملکے (instinct) کی مکمل معدومی سے بچا لیا‘۔ خالد اختر نے ایک جگہ تنخواہ ’اجاڑنے‘ کا قصہ بھی سپردِ قلم کیا ہے۔

اس قصے میں بھی سارہ کردار کے طور پر موجود ہیں۔ مہینے کی پہلی کو جیب میں 400 روپے کی گڈی ٹھونس کر وہ بچوں کو باہر ’عیاشی‘ کروانے لے گئے۔ انہوں نے آر سی کولا پیا، پولکا آئس کریم کھائی۔ بچوں کی تین چار کتابیں لیں، گھریلو استعمال کی چند چیزیں خرید لیں، سارہ کے یونیفارم کے لیے کپڑا لیا۔ گاڑی میں 3گیلن پٹرول ڈلوایا، گھر پہنچنے پر معلوم ہوا 10 کے 2 نوٹ ابھی خزانہ عامرہ میں باقی ہیں۔

ان کو فوری خرچ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ گولڈ لیف کے کنگ سائز کے 2پیکٹ منگائے گئے، اس ساری کارروائی کے بعد ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی: ’بیوی نے بچی سارہ کے اسکول کا بل لاکردیا، میں نے اسے عینک لگا کر بڑی دلچسپی سے پڑھا۔ بل 449 روپے 50 پیسے کا تھا۔ اس مہینے کے لیے میرے پاس بعد منہائی اخراجات مذکورہ کل اثاثہ 22 روپے بچا ہے اور اب اپنے دوستوں سے ادھار مانگنے کی سوچ رہا ہوں۔ بدقسمتی سے گھر میں نوٹ بنانے والی مشین نہیں ہے‘۔

باپ بیٹی کی دوستی میں لاہور کی مال روڈ بھی ایک کردار کے طور پر ابھرتی ہے، اس پر ایک دن دونوں نے پیدل خوب سیر کی۔ اس کے بعد ڈبل ڈیکر بس کی اوپری منزل پر بیٹھ کر سفر کرنے کی خواہش والد نے پوری کی۔ دونوں نے اونچے اسٹول پر بیٹھ کر کافی بھی پی، اس دن کی یاد سارہ کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوئی:
’آج اتنی جگہوں پر بڑی بڑی گاڑیوں میں اپنے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ گھومنے کے بعد بھی اس لطف کی متلاشی ہوں جو بابا کے ساتھ مال روڈ کی سیر میں حاصل ہوا تھا‘۔

سارہ اختر نے مضمون میں ایک ایسا واقعہ رقم کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے بیٹی کی معمولی سی تکلیف بھی خالد اختر سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ بچپن میں ایک دن شوقیہ روٹی بناتے انگلی توے سے چھو گئی، سارہ نے رونا شروع کیا، باپ نے پریشانی میں کھانا چھوڑا، انگلی پر دوائی لگائی اور بیٹی کو گاڑی پر بٹھا کر شاہ رکن عالم کے مزار پر چلے آئے جہاں بیٹی کی دل جوئی کے لیے انہوں نے بقول سارہ اختر یہ کیا: ’کبوتروں کو ڈالنے کے لیے دانا خریدا، سیڑھیاں چڑھ کر مزار کے احاطے میں آئے، دانے پھینکنے پر کبوتر جب غول کی صورت اوپر اڑتے اور پھر پُرسکون ہو کر دانا چگنے نیچے آتے تو مجھے بڑا مزہ آتا۔ میں تالیاں بجا کر ہنستی اور کودتی، بابا اور دانا خرید کر لاتے ، پھر کھیل شروع ہو جاتا‘۔

یہاں سے فراغت کے بعد باپ بیٹی گاڑی میں گھومتے رہے، گھر پہنچتے ہی سارہ نیند کی آغوش میں چلی گئیں اور صبح تک جلن کافور جیسے کبھی تھی ہی نہیں، باپ نے مرہم ہی وہ استعمال کی جس کے بعد جلن نے کہاں رہنا تھا۔

سید کاشف رضا نے لکھا ہے کہ خالد اختر اپنی کم آمیزی اور حجاب کے سبب اپنے بچوں سے بھی گرم جوشی والے تعلقات استوار نہیں کرسکے تھے۔ خالد اختر کے رویے میں ایک لاتعلقی ان کے بچوں کو بھی محسوس ہوتی تھی لیکن پھر انہیں یہ احساس ہوا کہ غیر روایتی انداز کے تعلق میں باپ انہیں کن اہم چیزوں سے سرفراز کرگیا ہے۔

ہارون خالد نے اس پہلو پر اپنے مضمون ’بابا اور میں‘ میں بات کی ہے۔ باپ کے انداز محبت کی سمجھ انہیں لمز میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان سے دور رہ کر آئی۔ باپ کی ساتھ منسلک یادوں میں سب سے روشن یاد وہ چہل قدمی ہے جو کتابوں کی دکانوں میں جانے کے سلسلے میں ہوتی۔ اس سے ان کے ہاں ایک ایسی جگہ کے تصور نے جنم لیا جہاں ’مسرت افزا خریداری کی جاسکتی تھی‘۔

ہارون خالد کے بقول ’آپ عموماً اپنے بچوں کے لیے اس انداز میں محبت کا اظہار کرنے میں مشکل محسوس کرتے تھے جیسے ایک عام باپ سے توقع رکھی جاتی ہے۔ میں اسے لاتعلقی سمجھتا تھا اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس تمام عرصے کے دوران آپ مجھ پر وہ تمام چیزیں نچھاور کرتے چلے جا رہے تھے جو خود آپ کے لیے بہت قیمتی تھیں، یعنی کہ کتابیں‘۔

محمد خالد اختر کی غیر روایتی محبت کا انمٹ نقش بچوں کے ذہنوں پر مرتسم ہوا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مدھم ہونے کے بجائے گہرا ہوتا جا رہا کہ یہ ادب کے رنگوں سے تشکیل پایا ہے۔

اسی لیے تو سارہ اختر نے لکھا ہے: ’ہر دن مجھے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ آپ نے مجھے گہرائی، تخیل اور تجزیے کی کس نایاب دولت سے مالا مال کیا۔ ادب کی لذت اور محبت نے مجھے کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا، جس کے لیے میں آپ کی بے حد شکر گزار ہوں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp