پاکستان شاید کرہ ارض پر واحد مملکت ہے جہاں آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے نام پر لغویات اور دشنام طرازیوں کی وہ دھما چوکڑی مچائی گئی کہ کسی کی عزت محفوظ رہی نہ مناصب کا وقار۔ چور، ڈاکو کی گردان تو ایک طرف رکھیے، عفت مآب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو وہ وہ گالی بکی گئیں کی کسی بھی شریف آدمی کی سماعت سننے کی تاب نہیں لا سکتی۔ یہ تو جو ہوا، سو ہوا، اب مملکت خدا داد نونہالانِ انقلاب کے نشانے پر ہے۔ وہ ہر اس عمل پر تالی بجاتے ہیں جس یہ تاثر ابھرے کہ ریاست ناکام ہو رہی ہے۔ ان خوش فہموں کو کون سمجھائے کہ خدا نخواستہ ریاست ناکام ہوئی تو یہاں موجود مٹی کے میدان، برف پوش پہاڑ اور بہتے دریا تو ناکامی کا بوجھ نہیں اٹھاتے، بوجھ تو اس دھرتی پر بسنے والے جیتے، جاگتے، گوشت پوست کے انسانوں ہی نے اٹھانا ہے، یعنی کہ آپ نے بقلم خود۔
فکری آزادی بلاشبہ کسی بھی انسان اور معاشرے کے لیے ایک عظیم نعمت ہے مگر دنیا میں ہر چیز کی ایک حد ہے۔ آزادی اپنی حد کے اندر ایک نعمت مگر اپنی حد سے باہر فساد ہی فساد ہے۔
فکری آزادی کی حد یہ ہے کہ وہ معلوم اور ثابت شدہ حقیقتوں کے دائرہ میں جاری ہو۔ مفروضات اور قیاسات کی بنیاد پر کوئی عمارت نہ کھڑی کی جائے۔ مذہبی، سماجی اور اخلاقی معیارات کو بھی دیکھیں تو اس میں واضح رہنمائی ملتی ہے کہ غیر ذمہ دارانہ کلام سے بچا جائے۔ وہی بات لکھی اور بولی جائے جس سے متعلق پوری طرح تحقیق کی جا چکی ہو۔
آدمی آگر کسی شخص کے خلاف یا کسی مسئلہ کے بارے میں کلام کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی پوری تحقیق کرے پھر وہ اس وقت بولے جب اس کے پاس بولنے کے لیے کوئی محکم بات ہو۔ بصورت دیگر اس پر لازم ہے کہ کہ وہ خاموشی کا طریقہ اختیار کرے۔
بولنا اس فرد کے لیے جائز ہے جو بولنے سے پہلے اس کی تیاری کرے اور وہ اپنے آپ کو بولنے کا اہل بنائے۔ سنی سنائی باتوں کو ہمارا مذہب بھی آگے پھیلانے سے سختی سے منع کرتا ہے۔ اس طرح نیت سے تعلق رکھنے والی باتوں کو زیرِ بحث لانا بھی ممنوع ہے کیونکہ اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ آزادانہ اظہار رائے جس طرح ایک حق ہے اسی طرح ایک ذمہ داری بھی ہے اور وہ یہ کہ کامل واقفیت کے بغیر آدمی کبھی اظہار رائے نہ کرے۔
جہاں تک اختلاف کا تعلق ہے تو انسان اپنی فطرت کے تحت چاہتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر سوچے اور اظہار خیال کرے۔ ہر انسان کا طرز فکر دوسرے انسانوں سے جدا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام لوگ ایک ہی ڈھنگ سے سوچنے لگیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اختلاف تقاضائے فطرت ہے۔ اب اگر مختلف گروہوں یا افراد کے درمیان اختلاف کا معاملہ پیش آجائے تو وہ برداشت اور تحمل کا راستہ اختیار کریں، اس دنیا میں جو شخص جتنا متحمل ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب ہو گا۔
اس تحمل کا تعلق مملکت یا سیاسی اقتدار سے نہیں بلکہ اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ ہر آدمی کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، سیاسی دائرہ میں ہو یا غیر سیاسی دائرہ میں، آپ انسان کی اس دنیا کو ٹھوکر نہ ماریں بلکہ اپنا اختلاف صرف دلائل پیش کرنے تک محدود رکھیں۔
اختلاف کا صیح اور فکری اصول یہ ہے کہ اختلاف کو صرف اختلاف کے دائرہ میں رکھیں، اس کو تصادم یا عملی جارحیت کے درجہ تک ہرگز پہنچنے نہ دیا جائے۔ ایک سیاستدان کے لیے عملی جارحیت یہ ہے کہ وہ نظری اختلاف کی حد سے گزر کر مخالف کے اقتدار سے ٹکرانا شروع کردے، وہ اس کے قلب ودماغ کو مخاطب کرنے کے بجائے اس کے سیاسی وجود کو مٹانے پر تل جائے۔
ایک عام انسان کے لیے عملی جارحیت یہ ہے کہ آدمی سنجیدہ اختلاف کی حد پر نہ رکے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ زیر اختلاف شخص کی ذات کو مطعون کرنے لگے۔ وہ اس کی تذلیل و تحقیر کرے اور اس کو بدنام کرنے کی مہم چلائے، اور سازشی منصوبوں کے ذریعے ایسی تدبیر کرے کہ اس کے سماجی تعلقات ٹوٹ جائیں۔
عملی جارحیت یہ ہے کہ آدمی کے دماغ سے اپیل کرنے کے بجائے خود اس کے وجود سے تصادم شروع کر دیا جائے۔ اس کو سنجیدہ دلائل سے قائل کرنے کے بجائے غیر سنجیدہ طریقوں سے زیر کرنے کی کوشش کی جائے۔ آزادی ہر انسان کا فطری حق ضرور ہے لیکن اس حق کو استعمال کرنے کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنی آزادی کو تشدد اور جارحیت تک نہ لے کر جائے۔
موجودہ زمانہ میں چونکہ جھوٹے ناقدین کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے، اس لیے بہت سے لوگ سچی تنقید کو بھی برا سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جھوٹی تنقید اگر بدبو ہے تو سچی تنقید خوشبو۔ جھوٹی تنقید ایک قسم کی تخریب کاری ہے اس کے مقابلہ میں سچی تنقید ایک تعمیری عمل ہے۔
فی زمانہ سوشل میڈیا پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کوآزادی اظہارکہنا لفظ ‘آزادی اظہار’ کی بھی توہین کے مترادف ہے۔ گالم گلوچ کا جو نیا کلچر فروغ پا رہا ہے، اس سے آپ آنے والی نسلوں کے فکری ارتقاء کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ اختلاف رائے کے نام پر ریاست کے اہم عہدوں پر براجمان شخصیات کی عزت و تکریم تو چھوڑیے، اب ہمارے سوشل میڈیا کے بزرجمہر ریاست کو ناکام بنانے پر ہی تل گئے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف زندہ معاشرے کی علامت ضرور لیکن اپنی حدود کے اندر، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم جانے انجانے میں کہیں اپنے دشمنوں کے ہاتھوں میں استعمال تو نہیں ہو رہے؟