پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم نے کہا ہے کہ سو موٹو کیس میں بینچ میں شامل ججز کی تعداد تین کے بجائے سات ہونی چاہیے جس کا فائدہ ہو گا کہ یہ تین ججز اپنے کر لیتے ہیں اور وہ فیصلے معیاری نہیں ہوتے، عدالت کے دائرہ اختیار پر بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ عدالتی بینچز کے حالیہ فیصلوں سے ایسے لگتا ہے کہ ایک پاکستان نہیں ہے ، دو پاکستان ہیں۔ ایک پاکستان نچلے طبقے کے پاکستانیوں کے لیے ہے، قانون ماننے والوں کے لیے اور دوسرا پاکستان جو کہ فوجیوں کو، عدالتوں کو، اسمبلیوں کو گالی دینے والوں اور سڑکیں بلاک کر کے پولیس پر تشدد کرنے والوں کے لیے ہے، ان کے لیے باقاعدہ نظریہ ضرورت والا قانون بھی بنا دیا جاتا ہے۔
نور عالم نے کہا کہ میرا عدلیہ، پارلیمنٹ اور عوام سے بھی سوال ہے کہ کیا ہم ایک پاکستان چاہتے ہیں یا دو پاکستان چاہتے ہیں۔ کیا غریب کے لیے الگ پاکستان ہے ، کیا امیر یا لیڈر یا طاقتور کے لیے کوئی الگ پاکستان ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں کرپشن کے جتنے کیسز ہیں خواہ وہ بی آر ٹی ہو، صحت کا ہو یا بلین ٹری کا ہو یا میری ٹائم افیئر ہو جب بھی ہم یہ کیسز ایف آئی اے یا نیب کو بھیجتے ہیں تو اس پر حکم امتناع آ جاتا ہے ، پاکستان کے عوام کے پیسے جو لوگ لوٹتے ہیں ان کے حق میں حکم امتناع کیوں دیا جاتا ہے۔
نور عالم نے کہا کہ ایک لیڈر کہتا ہے کہ گولیاں اس پر چلی ہیں، آپ کو پتہ نہیں ہے کہ جب گولیاں چلتی ہیں تو کیسی ہوتی ہیں، محترمہ شہید نظیر بھٹو پر گولیاں چلی تھیں تو وہ شہید ہو گئی تھیں ، لیاقت علی خان پر گولی چلی تھی اور وہ شہید ہو گئے تھے ۔ اب جو لیڈر کہہ رہا ہے کہ اس پر گولیاں چلیں اس پر کسی نے گولی نہیں چلائی ، یہ ڈرامے بند کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سنیارٹی پر یقین نہیں کرتے، یہ اپنا صدارتی نظام لانا چاہ رہے ہیں کہ میں کل امیر المومنین بن جاؤں یا اس ملک کا بادشاہ بن جاؤں، نئے آرمی چیف سے پہلے ہمیں اس ایوان میں ذبردستی بھی بٹھایا جاتا تھا،آج اگر کوئی مداخلت نہیں کرتا، ہمیں کوئی کرنل، برگیڈیئر یا جنرل کال نہیں کرتا تو اس پر یہ لوگ کیوں خفا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا 2019ء کا معاہدہ سامنے لایا جائے تا کہ پتہ چلے کہ یہ معاہدہ پچھلی حکومت نے کیا تھا جس سے ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان آیا۔
نور عالم نے کہا کہ جب تحریک انصاف والوں نے اسمبلیوں سے استعفے دے دیے تو سپریم کورٹ نے کس قانون کے تحت انہیں دوبارہ اسمبلیوں میں آنے کی اجازت دی ۔