لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے وفاقی حکومت کی حساس اداروں کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کردی۔
جسٹس فاروق حیدر نے سابق ایم پی اے غلام سرور کی درخواست پر سماعت کی، جس کے بعد عدالت نے درخواست لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو بھجوا دی۔
یہ بھی پڑھیں: فون ٹیپنگ کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، وزیر قانون
عدالتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ درخواست میں اہم قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں، ایسے میں کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنایا جائے۔
فون ٹیپنگ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں وزیراعظم، وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ایک نوٹیفکیشن میں آئی ایس آئی کو لوگوں کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت دی، پی ٹی اے ایکٹ کے جس سیکشن کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اس کے ابھی تک رولز نہیں بنے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان اپنے دور میں فون ٹیپنگ کے فوائد بیان کرتے تھے، آج مخالفت کیوں؟ خواجہ آصف
درخواست میں کہا گیا کہ آئین پاکستان شہریوں کو پرائیویسی، آزادی اظہار رائے فراہم کرتا ہے، انڈین سپریم کورٹ کے مطابق بھی لوگوں کے فون ٹیپ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ حکومت کا آئی ایس آئی کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کا نوٹیفکیشن غیرقانونی قرار دے اور اس درخواست کے حتمی فیصلے تک مذکورہ نوٹیفکیشن کی کارروائی کو معطل کرے۔ مزید برآں، حکومت کو ہدایت جاری کی جائے کہ پی ٹی اے ایکٹ کے سیکشن 56 کے تحت رولز بنائے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق سے ’فون ٹیپنگ‘ کے قانونی دائرہ کار پر جواب طلب کرلیا
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 8 جولائی کو بذریعہ نوٹیفیکیشن آئی ایس آئی کو شہریوں کی فون کال سننے یا ٹریس کرنے کی اجازت دی تھی۔ کابینہ نے سمری کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے دی، سمری کے مطابق فیصلہ قومی سلامتی کے مفاد میں کسی جرم کے خدشے کے پیش نظر کیا گیا ہے، آئی ایس آئی کو شہریوں کی فون کال کے ساتھ ساتھ میسجز میں مداخلت یا ٹریس کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔