خبردار! بھولنے نہ پائیں

اتوار 14 جولائی 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کیا فلمیں دیکھتے ہوئے آپ بھی کچھ اس قسم کی کیفیات سے کبھی گزرے ہیں؟ جیسے کسی ولن یا ویمپ کے کردار دیکھ کر آپ کی نظروں کے سامنے ارد گرد منفی سوچ رکھنے والے افراد آجائیں! یا کسی رومانوی سین پر آپ کے ذہن میں فوراً اس انسان کی شبیہ ابھر آئے جس سے آپ محبت کرتے ہیں!

یا اکثر کسی مزاحیہ سین پر آپ کو اپنا کوئی دوست یا کزن یاد آگیا ہو جو ایسے چٹکلے چھوڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتاـ یا کوئی ٹریجیڈی سین دیکھتے ہوئے آپ کا دل پسیج اور گلا رندھ جائے اور آپ کی آنکھیں بنا برسات کے ساون کا روپ دھارلیں۔

ہم سب فلموں میں ایسے منفی، رومانوی اور مزاح سے بھرپور سین دیکھ کر اپنے جذبات کی روح میں کچھ اس طرح بہے چلے جاتے ہیں کہ جیسے وہ واقعات ہمارے ہی ساتھ رونما ہو رہے ہوں۔

اسی لیے فلم ایک ایسے میڈیم کے طور پر جانا جاتا ہے جو بڑی آسانی سے انسان کے جذبات سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پر مستزاد اگر فلم کسی اچھے اسکرپٹ، دل کو چھولینے والی اداکاری اور بہترین ہدایتکاری پر مبنی ہو تو کیا ہی کہنے۔

فلمیں ہمیشہ سے لوگوں کی ذہن سازی کرنے اور ان کی نفسیات پر ایک گہرا اثر چھوڑنے میں بے حد معاون رہی ہیں۔ اس رجحان میں سوشل میڈیا کے بعد مزید تیزی آئی ہے۔ کیونکہ لاتعداد ویب سائٹس نے لوگوں کو گھر بیٹھے ہی فلمیں یا اعلیٰ پایہ کی سیریز دکھانے کا اہتمام کردیا ہے۔ بہرحال سینیما میں فلم دیکھنے کا آج بھی اپنا ہی مزا ہے۔

لیکن کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ رومانوی، تھرلر، ہورر، مزاحیہ، ایکشن،  ڈرامہ اور پیریڈ ڈرامہ فلموں  کے علاوہ نہ جانے ہم کتنی ایسی فلمیں بھی دیکھتے ہیں جو بطور خاص ’پروپیگینڈا فلمیں‘ کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ پچھلے چند برسوں میں پاکستانی اور انڈین سینیما نے متواتر ایسی پروپیگینڈا فلمیں پروڈیوس کی ہیں لیکن بڑے ہی بھونڈے انداز میں۔

ایسی فلمیں بنانے میں ہالی ووڈ اور یورپین سینیما کو ملکہ حاصل ہے اور کیوں نہ ہو، ٹیکنالوجی ان کے گھر کی باندی جو ٹھہری۔ مالی ذرائع کی ان کے پاس فراوانی، تجربہ کار عملے کی رہنمائی اور پھر بہترین حکمت عملی میں بھی ان کا طوطی بولتا ہے۔

جن موضوعات پر بے تحاشہ فلمیں بنیں ان کی چند مثالیں تو انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں، جن میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی کہانیاں، سرد جنگ کا دور لیکن ان سب پر بھاری ہولو کاسٹ ہے۔

جتنے سبک، نفیس اور غیر واضح انداز سے اب تک سیکڑوں ہولوکاسٹ پر فلمیں پروڈیوس کی جا چکی ہیں، غالباً کسی اور سانحہ یا المیہ پر نہیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر فلموں کے ٹریلر یا نام سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ وار فلم ہیں یا ہولوکاسٹ کے سانحے کو اجاگر کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

’دی ریڈر‘ دیکھ لیجیے یا ’گلومی سنڈے‘ یا ’سوفیز چوائس‘ کہنے کو یہ صرف 3 مثالیں ہیں ورنہ ایسی فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے، جس میں فلم دیکھتے ہوئے محسوس ہوگا کہ ایک اچھوتی محبت کی داستان ہے اور پھر فلم کا اختتام  ایک دل کو چھو لینے، اعصاب جھنجھوڑ دینے اور آنکھوں کو نم کر دینے والے ہولوکاسٹ سے وابستہ ایک واقعہ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح فیملی ڈرامہ لائف از بیوٹی فل، دی پیانسٹ، ون لائف، شنڈلرز لسٹ اور اس جیسی بے شمار فلمیں ہیں جن میں کہانی ایک گھرانے یا ایک فرد کی تباہی پر مبنی ہوتی ہے اور پھر آگے چل کر ہولوکاسٹ اور یہودیوں سے تعلق نکلتا ہے۔

جہاں ایسی غیر واضح فلمیں ہر سال بنتی ہیں وہیں ’نازی کیمپوں میں یہودیوں کے خلاف بدترین تشدد، نسل کشی‘ اور باقاعدہ ہولوکاسٹ کے بارے میں دو ٹوک موقف رکھنے والی ہزاروں فلمیں بھی موجود ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق تقریباً ہر سال کم از کم 4 سے 5 فلمیں اس موضوع پر ضرور بنتی ہیں، اکثر آسکر ایوارڈ سے بھی نوازی جاتی ہیں اور دنیا بھر میں ہولوکاسٹ پھر سے زندہ ہو جاتا ہے۔ بظاہر فلم رومانوی، ایکشن، ڈرامہ،  سسپینس نظر آتی ہیں لیکن کہانی کا مطمع نظر یہودیوں کے ساتھ بہیمانہ زیادتی ہوتا ہے۔

یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اکتوبر 2023 تک ہولوکاسٹ یہودیت کے لیے ہی نہیں بلکہ تاریخ کا بھی ایک انسانی المیہ تھا جو بے حد سفاک تھا۔

لیکن انگریزی کے اس محاورے

“Out of sight, out of  mind”

کے مصداق لگتا تو یہی ہے کہ جتنے تواتر سے اس موضوع پر فلمیں اور ڈاکیومینٹریز بنتی ہیں واضح محسوس ہوتا ہے کہ ’بے شک ہولوکاسٹ سے کئی گنا بدترین بربریت کہیں اور رونما ہو رہی ہو لیکن خبردار دوسری جنگ عظیم کے ہولوکاسٹ کو بھولنے نہیں دینا ہے‘۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مئی 2023 سے اب تک ہولوکاسٹ پر تقریباً سیکڑوں ویب سیریز، فیچر فلمیں، دستاویزی فلمیں اور ڈاکیومینٹریز بنائی جا چکی ہیں جبکہ اس وقت ہولوکاسٹ سے زیادہ بھیانک اور تاریخ کی ناقابل یقین نسل کشی جیسا المیہ غزہ کے انسانوں پر ڈھایا جارہا ہے اور اس بار سفاکیت کا جھنڈا اسرائیل نے اٹھا رکھا ہے۔

الجزیرہ کی ایک اسٹڈی کے مطابق فلسطین دنیا کے نقشے پر وہ خطہ ہے جہاں 9 ماہ میں تقریباً ایک لاکھ چھیاسی ہزار انسانوں کو ختم کیا جا چکا ہے جن میں 30 سے 35 ہزار بچے ہیں، اور فلسطین 21ویں صدی میں دنیا کا وہ بد نصیب خطہ ہے جہاں اسرائیل کی بربریت سے بچ جانے والا ہر بچہ جسم کے کسی نہ کسی عضو سے محروم ہے۔

میں ہولوکاسٹ سے متعلق ’اب‘ کوئی بھی فلم دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ مغرب اور بالخصوص جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اندوہناک جرائم کیے۔ انہیں اپنے علاقوں اور گھروں سے بے دخل کیا، طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔

گیس چیمبرز میں انہیں دم گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑا کہ آج 75سال بعد بھی سیکڑوں فلمیں ان خوفناک مظالم پر بن رہی ہیں اور ہم ہر فلم دیکھ کر لرز جاتے ہیں۔

اور اب ’آئرن اسٹنگ، اسپائک فائر فلائی، اسپارک ڈرون‘ جیسے اکیسویں صدی کے جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں سے فلسطینی باشندوں کی نسل کشی جاری ہے۔ غزہ ملیامیٹ کیا جا چکا ہے، اور اب مغربی کنارے کے صدیوں پرانے باسیوں کو اسرائیلی آبادکار تشدد کا نشانہ بنا کر بے دخل کر رہے ہیں۔

تب ایک خیال آتا ہے کہ نہ جانے اگلی کتنی صدیوں تک فلسطین میں ہونے والے مظالم اور ہلاکتوں پر کیسی کیسی خوفناک فلمیں بنیں گیں کہ برسوں دنیا پر لرزہ طاری رہے گا۔ جس طرح یورپ اور بالخصوص جرمنی کے سر آج بھی دوسری جنگ عظیم کے ہولوکاسٹ پر شرم سے جھکے رہتے ہیں، نہ جانے فلسطینیوں کے ساتھ اس جاری بربریت پر پوری دنیا اپنا سر کبھی اٹھا بھی پائے گی؟

پھر اپنا سر جھٹک کر سوچتی ہوں کہ، شاید یہ ایک دیوانے کا ہی خیال ہو!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp