میں حیران پریشان کھڑا کبھی سامنے موجود آسمان کو چھوتے کاغذی پہاڑ اور کبھی موبائل فون کو دیکھ رہا تھا۔ گوگل میپ والی ’لڑکی‘ مُصر تھی کہ آپ قصرِ عدل کے دروازے پر کھڑے ہیں، لیکن دروازہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سوچا شاید اس پہاڑ پر چڑھ کر دروازے کا دیدار ہوجائے۔ چڑھائی شروع کی تو پتا چلا یہ کوئی عام کاغذ نہیں فائلیں اور خط ہیں، اوپر لکھی عبارتیں صاف بتارہی تھیں کہ یہ مقدمات کی فائلیں ہیں، کسی پر مقدمے کی نوعیت اور نمبر کے ساتھ 1950 درج تھا، کوئی ساٹھ کے عشرے کا مقدمہ تھا کو ستر کی دہائی کا، کہیں لفظ و اعداد مٹتے ہوئے، کہیں یکسر معدوم۔ اوپر چڑھتے ہوئے میں لفظوں اور ہندسوں پر سرسری نظری ڈالتا اور انھیں روندتا جارہا تھا۔ ’سرکار میں تیس سال سے قید‘،’میرا بیٹا دس برس سے لاپتا‘۔ پیلے پڑجانے والے خطوں کی سرخیاں اور سطریں میرے جوتوں تلے چُڑمڑا رہی اور کچلی جارہی تھی۔ میں اس بلند و بالا پہاڑ پر کچھ فٹ ہی چڑھا تھا کہ ایک بوڑھی نسوانی آواز آئی:
’نیچے اترو ورنہ تم بھی ان بُھلائی ہوئی فائلوں میں کھو کر بھلا دیے جاﺅ گے‘۔
میں آواز کی طرف نظریں کیے ہانپتا کانپتا نیچے آگیا۔ وہ اتنی بوڑھی تھی کہ لگا میرے سامنے جُھریوں میں لکھی تاریخ لیے پوری صدی کھڑی ہے۔
’یہ پہاڑ کیسا ہے، اور آپ کون ہیں؟‘۔
’یہ رکے ہوئے مقدمات، بُھلائی ہوئی عرضیاں اور جواب کے منتظر خط ہیں اور میں وہ تاریخ ہوں، جن کا انتظار یہ مقدمات کر رہے ہیں اور میں ان مقدمات کے چلنے کی منتظر ہوں‘۔
اتنا کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
اب میں اس سمت چلنے لگا جس طرف گوگل میپ قصرِ عدل کا دوسرا دروازہ دکھا رہا تھا۔ کاغذی پہاڑ کے ساتھ سفر کرتا آکر میں اس دروازے تک پہنچ گیا۔ اونچے دروازے پر ایک گھنٹی نصب تھی، اتنی اونچی کہ میں اپنا قد دگنا کرکے بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
’میں اس گھنٹی تک کیسے پہنچوں؟‘
مستعد دربان سے پوچھا تو کُھردرے لہجے میں جواب ملا۔
’تم اس تک نہیں پہنچ سکتے‘۔
’مگر یہ ضروری ہے، میں صحافی ہوں، مجھے بی بی عدلیہ کا انٹرویو کرنا ہے، اس لیے انہیں بتانا ہے کہ میں آگیا ہوں‘۔
’یہ گھنٹی تمھارے لیے نہیں، اسے بجانے کے لیے ہاتھ نیچے سے اوپر نہیں، اوپر سے نیچے لانا ہوتا ہے یا پھر ٹرک اور کنٹینر پر چڑھ کر اسے بجایا جاسکتا ہے‘۔
اس جواب سے میں جھنجھلا اٹھا۔ آخر اُکتا کر میں نے قصرِ عدل کے بڑے والے انتظامی اہل کار کو فون کیا:
’میں‘
’جی پتا ہے آپ صحافی ہیں، آج آپ کو بی بی عدلیہ کا انٹرویو کرنا ہے، آپ کو اب تک پہنچ جانا چاہیے تھا، کیوں نہیں پہنچے، جانتے نہیں عدلیہ کا وقت کتنا قیمتی ہے، اگر ایک منٹ کی بھی تاخیر ہوئی تو آپ بی بی عدلیہ کا انٹرویو کرنے سے محروم تو ہو ہی جائیں گے، توہین کے مرتکب بھی قرار پاسکتے ہیں‘۔
بڑا والا انتظامی اہل کار میری سُنے بغیر ہی برس پڑا۔
’ارے آپ میری بات تو سنیں گوگل میپ بتارہا تھا کہ میں قصرِ عدل کے سامنے کھڑا ہوں مگر مجھے آپ کی عمارت کہیں نہیں نظر نہیں آئی، وہاں تو کاغذوں کا دور تک پھیلا اور بہت اونچا پہاڑ ہے اور بس‘
’اوہو، کیا آپ کو نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ کو اس راستے سے نہیں آنا جو آپ جیسوں کے لیے ہے، بلکہ اس راہ گزر سے آنا ہے جہاں سے آپ نہیں آسکتے؟‘
’کیا مطلب، یہ کیا پہیلی ہے؟‘
’مطلب چھوڑیں آپ کو لانے کے لیے گاڑی بھیجی جارہی ہے‘۔
کچھ دیر بعد ایک چمچماتی ہوئی سیاہ گاڑی میرے سامنے تھی۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا اور میرے بیٹھتے ہی گاڑی ہوا ہوگئی۔
کچھ دیر بعد میں ایک وسیع و عریض کمرے میں بیٹھا تھا، میرے سامنے بھاری بھر کم کتابیں بڑے سلیقے سے انسانی جسم کے سانچے کی صورت سجی تھیں، ان کے سرورق اور کتابی وجود سے اپنی جھلک دکھاتے باریک باریک متن چند الفاظ کی گردان کر رہے تھے ’آئین، قانون، دفعہ‘۔ ایک بڑا سا کالا چوغہ اس سانچے کو گھیرے تھا، چوغے کی دمکتی پٹی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی، اس کتابی قامت کے سامنے ترازو اور چھوٹی سی ہتھوڑی رکھے تھے۔ یکایک کتابی سانچے کے اوپر دھری سفید وِگ ہلی، اور صفحات پلٹنے کی سی ایک آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔
’ہاں صحافی صاحب، پوچھو جو پوچھنا ہے‘۔
یہ تھیں بی بی عدلیہ۔
میں کچھ کہنے ہی کو تھا کہ بائیں طرف سے آتا شور کمرے کو بھرنے لگا، یہ بہت سی ملی جلی آوازیں تھیں ’انصاف کرو‘،’بیٹا گم شدہ‘،’چوہدری نے بیٹی کی عزت۔۔‘،‘تیس سال ہوگئے، اب تو میرا مقدمہ سُن لیں‘۔
بی بی عدلیہ کے وجود سے نکلتی کتاب نے پاس دھری ہتھوڑی اٹھائی اور میز پر ’ٹھک ٹھک ٹھک‘ کیا، دفعتاً ایک باادب ملازم اندر آیا، جسے حکم ملا ’یہ بائیں طرف والی کھڑکی بند کردو‘۔
کھڑکی بند کردی گئی، آوازیں اپنی موت آپ مر گئیں۔ اب کمرے میں مکمل سکوت تھا۔
’کیا نظریہ ضرورت ختم ہوچکا ہے؟‘
میں نے گلا صاف کر کے پہلا سوال کیا۔
’ضرورتیں بھی کبھی ختم ہوئی ہیں؟‘
’جی یہ الگ بات ہے، میں تو مشہور نظریہ ضرورت کے بارے میں‘۔
’تھوڑے کہے کو بہت سمجھو‘۔
’اچھی بات ہے مادام، لیکن مقدمات کی سماعتوں کے دوران تھوڑا کے بجائے سب کچھ کہہ دینے کی روش کیوں اپنائی جاتی ہے؟ حال آن کہ کہا جاتا ہے جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔
’تو یہ فیصلے ہی بول رہے ہوتے ہیں یا یوں کہہ لو کہ فیصلے بتا رہے ہوتے ہیں کہ آخرکار وہ کیا بولیں گے اور تم صحافیوں کو تو دوران سماعت ہمارے تبصروں، رائے زنی اور فقرے بازی سے خوش ہونا چاہیے۔ ان سے ہماری تاریخ پر کوئی بھی رنگ چڑھے ہم تمھیں تو سرخیاں ہی دیتے ہیں‘۔
’آپ کے لیے سب سے پُرسکون دن کون سے ہوتے ہیں؟‘
’وہ دن جب نئی نویلی آمریت آتی ہے، ہم سے نیا حلف اٹھواتی ہے، اس سے ایک تو نئے پن کا احساس ہوتا ہے، پھر میں فیصلوں پر سر کھپانے اور مشقت کرنے سے بچ جاتی ہوں۔ بس فیصلے پڑھ کر سنانا ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں جو بھی کروں چند آوازوں کے سوا ہر طرف خاموشی ہوتی ہے۔ سکون ہی سکون‘۔
’یعنی آمریت کا ساتھ دینا باعثِ مسرت ہے؟‘
’اوہو ۔۔۔ طنز فرمارہے ہیں۔ جب بھی کوئی فوجی آمر آیا یہ کچھ جج ہی تھے جنہوں نے حلف اٹھانے سے انکار کیا اور مستعفی ہوگئے۔ اس آئین شکنی پر تم نے کسی جنرل اور بیوروکریٹ کو استعفٰی دیتے دیکھا؟ کوئی سیاست داں سڑکوں پر نکلا؟ کسی صحافتی ادارے کے مالک نے آمرانہ حکومت کو رد کیا؟ کوئی صحافی یہ کہہ کر ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوا کہ میں کسی آمر کو خبر میں صدر مملکت نہیں لکھوں گا، اور طنز کا نشانہ بس میں‘۔
’لیکن آئین کا دفاع و تشریح اور انصاف کی فراہمی تو آپ ہی کی ذمے داری ہے‘۔
’اور یہ جو خود کو سینہ چوڑا کرکے آئین بنانے والا اور قانون ساز کہتے ہیں یہ تو ایسے موقع پر گھر بیٹھتے ہیں، ملک چھوڑتے ہیں یا مٹھائی بانٹتے ہیں‘۔
’مولوی تمیز الدین آئے تو تھے آپ کے پاس؟‘
’بدتمیزی مت کرو، کوئی اور سوال پوچھو‘۔
’آپ کو ڈیم بنانے میں بہت دل چسپی ہے، اس کی وجہ؟‘
’دراصل میں نے چلو بھر پانی اور آئین بنانے اور جمہوریت کے لیے جدو جہد کرنے والوں کے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کا اتنا ذکر سنا کہ میں ملک میں قلت آب کے مسئلے پر سوچنے پر مجبور ہوگئی۔ اس لیے سوچا ڈیم بناکر پانی ذخیرہ کیا جائے۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ زیرِ سماعت مقدمات کی جو لاکھوں فائلیں اور ملحقہ دستاویزات جمع ہوچکی ہیں انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے ذخیرۂ آب بھی تو چاہیے۔ اب تم سمجھ گئے ہو گے کہ ڈیم بنانا ہمارے دائرہ کار ہی میں آتا ہے‘۔
’جی جی سمجھ میں آگیا اور آپ کی بات سن کر خیال آیا کہ 2021 میں 21 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیرالتوا تھے، اب تو یہ تعداد اور بڑھ گئی ہوگی۔ آپ ان مقدمات کو نمٹانے کے لیے رات کو عدالتیں کھولنے کا سلسلہ کیوں شروع نہیں کردیتیں؟‘
’یہ سلسلہ شروع کر دیا تو سب کہیں گے کہ مقدمات کی سماعت ان کی عدالتوں کے باہر کھڑی گاڑیوں کے پاس جاکر اور منٹوں میں سات سات مقدمات نمٹا کر مقدمات کا بوجھ کم کیا جائے‘۔
’جی کیوں نہیں، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں‘۔
’پھر تم یہ بھی کہو گے کہ جو مجرم یا ملزم علاج کے لیے ملک سے باہر جانا چاہے جانے دیا جائے‘۔
’ہونا تو یہی چاہیے، کیوں کہ سب برابر ہیں‘۔
’جارج آرویل کا ناول اینیمل فارم پڑھو۔ اس میں لکھا ہے کہ سب جانور برابر ہیں مگر کچھ زیادہ برابر ہیں‘۔
’جی یہ ناول پڑھا ہے، پلاٹ بہت اچھا تھا‘۔
’دیکھو ! میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا پلاٹ کی کوئی بات نہیں ہوگی‘۔
’ارے میں تو ناول کے پلاٹ کی بات کر رہا تھا، خیر چھوڑیے، ویسے کیا خیال ہے اسلامی جمہوریہ اینیمل فارم معاف کیجیے گا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدلیہ کی طرف سے برابری کی یہ تشریح آئین کا حصہ بن جانی چاہیے؟‘
’نہیں نہیں، آئین تو منسوخ اور معطل بھی ہوتا رہا ہے لیکن یہ تشریح نہ کبھی معطل ہوئی اور نہ ہی منسوخ کی گئی، اس لیے اسے تحریر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں‘۔
’چلیے ایسا کیجیے کہ ان زیرِ التوا مقدمات کا بھی از خود نوٹس لے لیجیے‘۔
’یہ از خود کُش حملہ ہوگا اور ایسے حملے علما نے حرام قرار دیے ہیں۔ ایسی باتیں کرکے میرا جینا حرام نہ کرو۔ ویسے تم صحافی بھی تو از خود نوٹس والے مقدمات ہی کا نوٹس لیتے اور انہیں نمایاں نشر کرتے ہو۔ خود بہ خود ہونے والے مقدمات خود بہ خود چل کر خود بہ خود ختم ہوجائیں تو تم خود ہی بتاﺅ کیا ہمیں پوچھو گے کہ کون اور کیسی بی بی عدلیہ‘۔
’ایسا نہیں ہے، ہم تو ہر صورت آپ کی خبریں دیتے ہیں۔ یہی دیکھیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام 139 ممالک میں 130ویں نمبر پر آیا تو ہم نے اس خبر کتنی نمایاں جگہ دی‘۔
’پھر طعنہ ۔۔ میں بہتری لارہی ہوں، میری پوری کوشش ہے کہ آئندہ اس رینکنگ میں ہمارا نمبر۔۔۔‘
’ 139 واں ہو‘۔
’میرے اس زہر آلود لقمے پر بی بی عدلیہ نے مجھے قہربار نظروں سے دیکھا۔ ہتھوڑی میز پر پٹکی اور اہل کار کو خشمگیں لہجے میں حکم دیا:
’اس صحافی کو آئین کی کسی بھی دفعہ کے تحت یہاں سے فوری دفع کردو‘۔
اس سے پہلے کہ وہ اہل کار حکم کی تکمیل کرے میں از خود دفع دور ہو کر بی بی عدلیہ کے کمرے سے نکل گیا۔