میرے ایک دوست ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں سربراہی کے مزے لوٹ رہے ہیں، اکثر ان کے ہاں آنا جانا ہوتا ہے۔ ان کا ڈیپارٹمنٹ کہنے کو ’مارکیٹنگ‘ کا ہے لیکن ماحول کسی بڑے میڈیا ادارے کے نیوز روم جیسا ہے، جہاں ہر لمحہ خبریں بریک ہو رہی ہوتی ہیں۔
یہ مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ طرح طرح کے تجزیہ کاروں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی خبریں اور تجزیے سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے عالمی اسٹیبلشمنٹ تک، ہر ایک انہیں مارکیٹنگ ایگزیکٹوز سے مشوروں پر عمل پیرا ہے۔
برسوں سے ان کے ہاں آنا جانا ہے، اس لئے ان سب ’باخبر‘ لوگوں کی خبریں اور تجزیے ہمیشہ الٹ پلٹ ہوتے دیکھے۔مثلاً وہ بڑے تیقن سے میز پر زور دار مُکا رسید کرتے ہوئے بتاتے کہ فلاں لیفٹیننٹ جنرل اگلا آرمی چیف بن رہا ہے۔ جب کوئی اور آرمی چیف بنتا تو اپنی پچھلی پیش گوئی پر بات کرنے کے بجائے اگلی پیش گوئی کرنے میں جُٹ جاتے ہیں۔ خبریں، پیش گوئیاں بار بار باؤنس ہونے کے باوجود وہ شرمندہ ہونے اور آئندہ صرف اپنے پیشہ وارانہ امور پر دھیان دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب مارکیٹنگ ایگزیکٹوز کی خبروں اور تجزیوں کی بنیاد ان کے اسمارٹ فونز ہوتے ہیں، جہاں سے وہ اپنی پسند کی خبریں منتخب کرتے اور تجزیہ کاری کرتے ہیں۔
گزشتہ روز ان میں سے ایک دوست نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پوتی فاطمہ بھٹو کے ’تہلکہ خیز انکشافات‘ سنانا شروع کردیے۔ کہنے لگے: ’فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے، عمران خان آج بھی خوابوں میں جی رہا ہے، عدالتوں اور فوج سے ریلیف کی امید کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ 3 کا لندن پلان ہے۔ لندن پلان میں نواز شریف، مریم نواز اور جنرل عاصم کے درمیان طے ہوا تھا کہ عمران خان کو قتل کردیا جائے یا پھر نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ نواز شریف کو کرپشن کیسز سے بری کیا جائے گا، مریم نواز نئی وزیراعظم ہوں گی۔ عدالتیں اسی سازش کے صفحے پر ہیں اور ان تینوں سے ڈکٹیشن لے رہی ہیں‘۔
رئیل اسٹیٹ کمپنی کے مارکیٹنگ ایگزیکٹو نے فاطمہ بھٹو کے مزید ’انکشافات‘ کچھ یوں بیان کیے:’اب زرداری اور نواز شریف کے درمیان اندرونی لڑائی چل رہی ہے۔ زرداری چاہتے ہیں کہ بلاول نیا وزیر اعظم بنے،اسی لیے بلاول 85 سے زیادہ غیر ملکی دورے عوام کے خرچے پر کر چکے ہیں تاکہ امریکا اور دیگر ممالک سے اپنے لیے حمایت حاصل کرسکیں۔ پاکستان میں امریکی قونصل خانہ یہاں کے تاجر طبقے کو میٹنگز میں بلاول کے لیے باقاعدہ فنڈنگ کا کہہ رہا ہے‘۔
’سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ڈرٹی ہیریز کی بات مانیں گی جنہیں مریم، نواز، زرداری کی پارٹنر شپ میں اربوں روپے کمانے کو مل رہے ہیں۔ اگر عمران خان دوبارہ آ جاتا ہے تو وہ ان کو اُلٹا لٹکا سکتا ہے۔ جب تک یہ تمام کاروباری شراکت اور دار غدار مافیا عمران کو مار نہیں دیتے یا نااہل نہیں کر دیتے، کسی الیکشن کی امید نہیں‘۔
بقول مارکیٹنگ ایگزیکٹو ’فاطمہ بھٹو کا کہنا ہےکہ کورٹس دکھانے کو عمران کے حق میں کوئی آرڈرز دے بھی دیں تو وہ اندر سے اس آرڈر پہ عمل نہ کرانے کی سازش میں شریک بھی رہیں گی۔ خود سپریم کورٹ میں آدھے سے زیادہ جج نواز شریف کے پے رول پر ہیں۔ایک بریگیڈیئر عمران خان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی نگرانی کر رہا ہے، وہ لاہور میں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے ذریعے یہ سب کچھ کروا رہا ہے‘۔
فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے ’خدا کی قسم میں گواہی دے رہی ہوں کہ یہ سچ ہے کیوں کہ میں ان کی فیملیز کی اندرونی خبریں رکھتی ہوں۔ میرے اگر عمران کے بچوں اور جمائما خان سے گہرے ریلیشنز ہیں تو میری رسائی میرے اپنے ذرائع سے زرداری فیملی تک بھی ہے، اور ایسی رسائی کسی صحافی کو خواب میں بھی نہیں مل سکتی‘۔
فاطمہ بھٹو کا مبینہ طور پر مزید کہنا تھا ’میں جانتی ہوں کہ اس آتش فشاں کے نیچے کیا ہے؟ بس عوام عمران خان کو گرفتار نہ ہونے دیں ورنہ پکا اندیشہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے گا۔ خود عمران کی پارٹی کے شاہ محمود اور چند دیگر دوغلے کردار اس سازش میں عمران کے خلاف ’اسٹیٹس کو مافیا‘ کے مہرے بنے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو عمران سے دور کر دیں‘۔
یہ سب کچھ سنا کر مارکیٹنگ ایگزیکٹو نے موبائل میز پر رکھا اور بڑے فخریہ انداز میں مونچھوں کو بل دیا، گویا صدی کے بہت بڑے انکشافات کردیے ہوں۔اور میں لفظ لفظ اس جھوٹ پر ششدر بیٹھا رہ گیا۔ چند لمحہ توقف کے بعد نہایت بے تکلفی سے استفسار کیا کہ فاطمہ بھٹو نے یہ انکشافات کسی گفتگو میں کیے ہیں یا تحریر میں؟
جواب میں ان صاحب نے انکشافات کے درست ہونے پر دلائل دینا شروع کردیے۔ میں نے انہیں ٹوک دیا اور اپنا سوال دہرایا۔ وہ ایک بار پھر انکشافات کے درست ہونے پر اصرار کرنے لگے۔ عرض کیا: بھائی صاحب! مجھے انکشافات سے فی الحال غرض نہیں، میرا سیدھا سادہ سوال ہے کہ فاطمہ بھٹو نے یہ انکشافات کہاں اور کس فورم پر کیے ہیں؟
دراصل فاطمہ بھٹو سیاست پر بات کرتی ہی نہیں ہیں، وہ پچھلے کئی برس سے شاعری کرتی ہیں، تحریریں لکھتی ہیں، کچھ سماجی بھلائی کے کام کرتی ہیں۔چند برس قبل انہیں تحریک انصاف میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اس لیے مجھے 100فیصد یقین ہے کہ مذکورہ بالا ’انکشافات‘ کا ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی سے کوئی تعلق نہیں۔ اور مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ یہ بیان کس ’فیکٹری‘ میں تیار ہوا۔ وہاں اکثر ایسے بیانات، انکشافات تیار ہوتے ہیں، اور کسی نہ کسی مقبول شخصیت سے منسوب کرکے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیے جاتے ہیں۔
سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ سے سابق چیف جسٹس (لاہور ہائی کورٹ) جسٹس ناصرہ اقبال تک، درجنوں شخصیات سے ایسے بیانات منسوب کیے گئے، سوشل میڈیا پر وائرل کئے گئے۔ وہ بے چارے تردید کرتے رہ گئے لیکن ان کی کون سنتا ہے اور کس کے پاس وقت اور سمجھ بوجھ ہے کہ وہ تحقیق کرتا پھرے۔ لہٰذا کم علم، کم فہم لوگ ایسے بیانات پر فوراً ایمان لے آتے ہیں۔ وائرل ہونے والے من گھڑت بیانات، انکشافات سوشل میڈیا کے ذریعے ہر گردش کر رہے ہوتے ہیں لیکن تردیدی بیانات وائرل نہیں ہوسکتے۔ ایسی فیکٹریاں چلانے والے اس سائنس کو بخوبی جانتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کا مال خوب بکتا ہے۔
اس صورت حال پر پروین شاکر کا ایک شعر صادق آتا ہے:
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کردے گا
اس ’حکمت عملی‘ کی بنیاد جرمن لیڈر ایڈولف ہٹلر کے ایک وزیر اطلاعات جوزف گوئبلز کی ہدایات ہیں کہ ’آپ جھوٹ بولیں اور اُسے دُہراتے چلے جائیں تو وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ جتنا بڑا جھوٹ بولو گے اُتنا اس پر یقین کیا جائے گا‘۔اور یہ کہ ’بہترین پروپیگنڈہ یہ ہے کہ چند نکات تک محدود رہا جائے اور اُنھیں ہی بار بار دُہرایا جاتا رہے تاکہ لوگ اسے سچ مان لیں‘۔ اس نے یہ بھی کہا تھا ’جھوٹ ریاست کے لیے اہم ہے‘۔اور یہ بھی سجھایا ’سچ جھوٹ کی موت ہے اور سچ ریاست کا سب سے بڑا دشمن بھی ہے‘۔
چنانچہ پاکستان میں ’تبدیلی‘ کی لہر پیدا کرنے اور اسے اُچھالنے کے لیے گوئبلز کے ’ارشادات‘ خوب کام آئے۔ حکمت کاروں نے کہا کہ تبدیلی کسی بھی قیمت پر آنی چاہیے، اگرچہ اس کے لیے جھوٹ بولنا پڑے، شیطان سے مدد لینا پڑے، یہ نیکی کا کام ہوگا۔ تب ایسے ہی حکمت کاروں اور ان کے بھونپوؤں سے بات ہوتی تھی تو عرض کیا کرتے تھے کہ سفید، اجلے کپڑے پر داغ ہے تو اسے اتارنے کے لیے آلودہ پانی استعمال نہ کیا جائے، سارا کپڑا میلا ہو جائے گا۔ہمارا مؤقف تھا کہ ناپاک پانی سے پاکیزگی حاصل نہیں ہوسکتی۔ انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ جھوٹ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، حقیقت بہت جلد آشکار ہوجاتی ہے، پھر یوٹرن پر یوٹرن لینا پڑتے ہیں، ایک جھوٹ کی توجیہ میں ایک نیا جھوٹ گھڑنا پڑتا ہے۔ پھر معاملہ ایک سیاست کے شعبہ تک محدود نہیں رہتا، ہر جگہ یہی طرزِ عمل عادت سی بن جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا کلچر بن جاتا ہے جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اور انجام کار رسوائی کی صورت میں نکلتا ہے۔
مقام حیرت ہے ’زہد و اتقا کی بلندیوں‘ پر براجمان لوگ بھی ناپاک پانی سے پاکیزگی حاصل کرنے پر بضد رہے، اور اب بھی جھوٹ کی بنیاد پر اپنی دکان چمکانا چاہتے ہیں۔