ملتان کی رہائشی 20 سالہ ثانیہ زہرہ کی پنکھے سے لٹکتی لاش 9 جولائی کی صبح 9 بجے اس کے سسرال سے ملی، والد اسد عباس شاہ کی جانب سے درج ایف آر کے مطابق 9 جولائی کو صبح نیو تھانہ ملتان کے ایس ایچ او نے انہیں کال کرکے بیٹی کے سسرال پہنچنے کا کہا۔
محرم کے حوالے سے اپنی مصروفیات کے پیش نظر انہوں نے اپنی اہلیہ کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ داماد ساتھ علی رضا جیون کے گھر بھیجا، وہاں پہنچنے پر انہوں نے دیکھا کہ ایک کمرے میں ان کی بیٹی کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی، گلے میں سفید رنگ کا مرادنہ صافہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ثانیہ زہرہ کی مبینہ خودکشی کا معاملہ: ’جب تک مجرمان کو سزائیں نہیں ہونگی تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے‘
پولیس نے موقع پر فورینزک ٹیم کو بلایا ہوا تھا، جس نے باآسانی گرہ کھول کر ثانیہ زہرہ کی لاش کو نیچے اتار لیا، موقع پر موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کی بیٹی کی موت صبح 6 بجے کے قریب ہوئی ہے۔
ظاہری طور پر ثانیہ زہرہ کا جبڑا ٹوٹا ہوا تھا ٹانگوں پر رسی سے باندھنے کے نشانات بھی تھے جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے نشانات بھی تھے ہاتھ کی مٹھیاں بھی بند تھیں جو تدفین تک نہ کھل سکیں، ثانیہ 5 سے 6 ماہ کی حاملہ بھی تھی۔
’ثانیہ کا شوہراکثر مارپیٹ کرتا تھا‘
ایف آئی آر میں ثانیہ زہرہ کے والد اسد عباس شاہ نے پولیس کو بتایا کہ بیٹی کی اس طرح موت کے بعد ان کے داماد علی رضا نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا جبکہ اس کے گھر کے دیگر افراد خوش گپییاں کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ ’علی رضا نے خود کو کنوارا ظاہر کر کے میری بیٹی سے شادی کی،کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ علی رضا پہلے سے شادی شدہ اور ایک بیٹے کا باپ بھی تھا۔‘
اسد عباس شاہ کے مطابق ان کا داماد اپنی پہلی بیوی کو بھی گھر لے آیا تھا جس کے بعد گھر میں اکثر و بیشتر علی رضا ان کی بیٹی پر تشدد کرکے گھر بھیج دیتا تھا، جس کے بعد انہوں نے فیملی کورٹ میں خلع کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا لیکن بچوں کی خاطر علی رضا سے صلح کے بعد خلع کا دعوی واپس لے لیا تھا۔
مزید پڑھیں: کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
’۔۔۔اس کے بعد وہ میری بیٹی سے جائیداد میں حصہ لینے کا مطالبہ کرتا رہا (اور اسے) شدید دباؤ میں رکھا ہوا تھا، ہمارے گھر آنے کی بھی اجازت نہیں دیتا تھا، میرے اکلوتے بیٹے کی وفات ہوئی تو صرف جنازے پر آنے کی اجازت دی دیگر رسومات میں شریک نہیں ہونے دیا۔‘
اسد عباس شاہ کے مطابق ثانیہ کی موت سے ایک دن قبل علی رضا نے ان کے گھر آکر ثانیہ کا جائیداد میں سے حصہ طلب کرتے ہوئے بصورتِ دیگر جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
’میری بیٹی شدید دباؤ میں تھی، اس کو قتل کرکے خود کشی کا رنگ دیا جارہا ہے، میں پریشانی کے عالم میں تھا محرم الحرام کے انتظامات کی وجہ سے میں نے ثانیہ زہرہ کی تدفین کر دی، میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
ثانیہ کی موت گلا گھوٹنے سے ہوئی؟
ثانیہ کے والد اسد عباس نے ثانیہ کے خاوند علی رضا اور سسرالیوں پر اپنی بیٹی کے قتل کا الزام عائد کیا تھا لیکن ابتدائی طور پر خاتون کی موت کو خودکشی قرار دے کر لاش دفنا دی گئی تھی۔
مقتولہ کی لاش کو ورثاء نے بغیر پوسٹ مارٹم دفنا دیا تھا، علاقہ مجسٹریٹ کی اجازت سے قبر کشائی کر کے لاش کے نمونہ جات حاصل کر کے فورینزک لیبارٹری لاہور بھجوائے گئے تھے، جس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پولیس کو بھی ارسال کردی گئی ہے، فورینزک رپورٹ کے مطابق واقعہ خودکشی کا ہے کیونکہ پوسٹ مارٹم میں بھی جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں پایا گیا۔
مزید پڑھیں: لیہ، کھانے میں تاخیر پر سرالیوں نے خاتون کو قتل کر دیا
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ثانیہ کی موت رسی کے پھندے کے باعث ہوئی، رپورٹ میں اس کے جسم پر کوئی زخم یا تشدد کا نشان نہیں پایا گیا، اسی طرح اس کے جسم کی کوئی ہڈی بھی ٹوٹی ہوئی نہیں تھی۔
میری بیٹی پر دباؤ کیوں ڈالا گیا؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ثانیہ زہرہ کے والدہ اسد عباس شاہ کا کہناتھا کہ علی رضا جیون بااثر آدمی ہے ہوسکتا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ تبدیل کی گئی ہو۔ ’اگر میری بیٹی نے خود کشی بھی کی ہے تو اسکی تحقیات ہونی چاہیے کہ اس پر ایسا کیا دباؤ تھا کہ اس نے اپنی جان لے لی۔‘
مزید پڑھیں: خاتون کو چھریوں کے وار سے قتل کردیا گیا، دیور گرفتار
دوسری جانب پولیس نے ثانیہ زہرہ کے ناخنوں اور معدے سے نمونے بھی لیے ہیں تاکہ زہر خوارنی کے اندیشے کی جانچ کی جاسکے، پھندے کے لیے استعمال کی جانیوالی رسی کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اگر کسی اور نے پھندا دیا تو اس کا بھی پتا چل جائے گا، نشہ آور چیز کھلا کر یا زہر دینے سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں جبکہ ڈی این اے رپورٹ 20 دن تک آئے گی۔