محلہ داری نظام ‘پاکستان کی معدوم ہوتی ثقافت’

بدھ 17 جولائی 2024
author image

عاصمہ کنڈی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سترسالہ زریفاں بی بی نے اپنے پوتے کو دوپہر کے کھانے کے لیے دہی لانے کا کہا، تو اس نے جواب میں بتایا کہ جمعہ کی وجہ سے بھارہ کہو بازار کی دوکانیں بند ہیں۔ معدے کی تیزابیت کی وجہ سے وہ کھانے میں دہی کا استعمال کرتیں تھیں۔ اس پر انہوں نے اپنے اپنے 16 سالہ پوتے کو کہا کہ جاؤ سامنے زیتون خالہ کے گھر سے لے آؤ تاکہ میں کھانا تو آرام سے کھا سکوں۔ ان کی بات سنتے ہی حسن اچھلا اور کہا کہ میں کسی کے گھر سے مانگ کر نہیں لا سکتا مجھے شرمندگی ہوتی ہے اور نماز پڑھنے قریبی مسجد چلا گیا۔

زریفاں بی بی افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہنے لگی پتہ نہیں اس نئی نسل کو کیا ہوگیا ہے، بھلا پڑوسی سے کچھ مانگنے میں جھجھک کیسی؟ وہ کون سا پرائے ہیں ان کے بچے ہمارے گھروں میں کھیل کود اور کھا پی کر ہی تو بڑے ہوئے ہیں۔

اونچی اونچی آواز میں خود کلامی کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ کیا اچھے زمانے تھے جب محلے کے سارے گھر آپس میں اتفاق اور پیار محبت سے رہتے تھے۔ دکھ سکھ بانٹتے اور تیرا میرا نہیں ہوتا تھا۔ مصیبت کے وقت رشتےداروں سے پہلے ایک آواز پر لبیک کہتے تھے مگر اب یہ نئی نسل اپنے موبائیل فون سے ہی نہیں نکلتی۔ زریفاں بی بی کو پاکستان کی اس ختم ہوتی ثقافت کی ایک یہی وجہ سمجھ میں آئی۔

محلہ داری نظام پاکستان کی ثقافت و تاریخ کا ایک خوبصورت حصہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ تھا۔ گزرتے وقت کی روانی میں باقی رسوم و رواج کی طرح یہ ثقافت بھی دم توڑتی جا رہی ہے۔ ایک طرف تیزی سے شہری آبادی بڑھ رہی ہے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جارہی ہے۔ دوسری طرف گھروں کی جگہ اونچے رہائشی اپارٹمنٹس والی عمارتیں لے رہی ہیں، اور ہماری ثقافت بھی چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات تک محدود ہو کر رہتی جارہی ہے۔

محلہ داری نظام بھی اسی ثقافت کا ایک خوبصورت حصہ تھا جو اب اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں نظر نہیں آتا۔ اس روایت کی معدومیت کے عوامل جاننے کے لئے جب ہم نے کچھ گھریلو خواتین سے ان کی رائے جانی تو بیشتر کی رائے کے مطابق ’ٹیکنالوجی کا سیلاب‘ ایک بڑی وجہ نظر آتا ہے۔

یاسمین اختر، نوے کی دہائی میں بھارہ کہو کے ’محلہ عثمانیہ‘ میں اسلام آباد کے سیکٹر جی6 سے بیاہ کے آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب میری شادی ہوئی تومحلے میں ایک ہی ٹی وی ہوتا تھا جو کہ ہمارے گھر میں تھا۔ گرمیوں میں ہم اسے اپنے کھلے صحن میں رکھ کر چلایا کرتے تھے اور محلے کی سب خواتین اکٹھے بیٹھ کر 8 بجے والا ڈرامہ دیکھا کرتی تھیں۔ اسی بہانے ایک دوسرے کا دکھ سکھ بھی سنتے تھے اور دوستیاں بھی گہری ہوتی تھیں۔ محلے کےسب بچےبھی اپنے بچوں جیسے ہی لگتے تھے، مگر اب تو ہر گھر میں ٹی وی تو کیا ہاتھ ہاتھ میں موبائل فون آگئے ہیں اور محلے میں کسی کے گھر آنا جانا تو دور سب ایک گھر میں اپنے اپنے کمروں کے قیدی بن گئے ہیں۔

دوسری طرف، اسلام آباد کے سیکٹر جی 8 کی 32 سالہ رہائشی عالیہ (فرضی نام) ہیں جن کےخیالات یاسمین اختر سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام پہلے وقتوں کے لئے ہی صحیح تھا جب لوگ مخلص ہوا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے کام آتے تھے مگر اب بدلتے وقت کے ساتھ انسانی رویوں میں بہت بدلاؤ آچکا ہے، اب اخلاص اور اقدار کتابی باتیں لگتی ہیں۔ اس وقت کی برائیوں سے بچنے اور اپنے بچوں کو بچانے کے لئے اپنے گھر تک محدود رہنا ہی اچھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مصیبت میں کسی کے کام آنا اچھی بات ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے مگر کسی کی پرائیویسی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

وی نیوز نے اس معدوم ہوتی روایت کے عوامل جاننے کے لیے جب ماہر بشریات فرزانہ باری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں جوں جوں اربنائزیشن(شہری آبادی میں اضافہ) ہوتا جاتا ہے خاندانی اور برادری نظام بھی ختم ہوتا جاتا ہے۔

‘افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں شہری آبادکاری سرمایہ داری نظام کے تحت ہو رہی ہے جس میں انفرادیت پسندی زیادہ ہوتی ہے اور دوسروں کے بارے میں سوچنے کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ بات برادری اور خاندان سے نکل کر صرف میاں بیوی اور بچوں تک محدود رہ جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہونے والی شہری آباد کاری میں اقدار کا فقدان پایا جاتا ہے اور اس میں ’طبقاطی استحصال‘ کا بول بالا ہوتا ہے۔ جتنا امیر اتنا اپنی الگ اقدار بنانے والا۔ ‘

ان کا ماننا تھا کہ اس نظام کی وجہ سے ہی محلے داری جیسی اور بہت سی خوبصورت روایات پاکستانی کلچر کے صفحے سے مٹتی جا رہی ہیں۔ ان اقدار و روایات کو زندہ رکھنے میں معاون اقدامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ’اگر ہمیں ان روایات کو زندہ رکھنا ہے تو پھر ہمیں شہری آباد کاری کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو بنیاد بنانے کے بجائے برابری اور سماجی اقدار کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ‘

ثمر من اللہ جو پاکستانی آرٹ، کلچر اور روایات پر کام کرتی ہیں، انکا کہنا تھا کہ کلچر کو ہم غلط طور پر اپنے فوائد کے لیے استعمال تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کلچر کے بہت سے مثبت پہلو اور سوسائٹی کے لیے بہت سے فوائد بھی ہیں۔

جب بھی ہم کلچر کی بات کرتے ہیں تو اس کے منفی پہلو جیسےغیرت کے نام پر قتل اور ونی وغیرہ جیسی منفی رسومات کو دیکھتے ہیں مگر اس کے خوبصورت اور مثبت پہلو جیسے کہ یہ محلہ داری نظام تھا اسکو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس نظام کے تحت ہم گاؤں میں، محلے میں ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ دستیاب ہوتے تھے۔ اگر کوئی پریشانی ہوتی تھی یا شادی ہوتی تھی تو اس میں یہ سب مل کر اپنا حصہ ڈالتے تھے، جیسے کہ پشتو زبان میں کہتے ہیں، ’غم اور خادی‘ کہ غم اور خوشی میں سب سے یہ امید کی جاتی ہے کہ انھوں نے نہ صرف شامل ہونا ہے بلکے ذمےداریوں میں اپنا حصہ بھی ڈالنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے اگر کسی گھر میں فوتگی ہوتی تھی تو گاؤں کے لوگ آتے ہوئے کھانے پینے کا سامان لے آتے تھے تاکہ دوسروں کا بوجھ بانٹ سکیں۔ یہ وہ رسوم و رواج تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے ہیں اور اگر ہم دیکھیں تو ان کے خاندان، کمیونٹی اور سوسائٹی کے لی بڑے فوائد تھے اور اب بھی ہیں جہاں یہ نظام رائج ہے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp