لکی مروت میں دہشت گردی کی دو مختلف وارداتوں میں ڈی ایس پی سمیت چار پولیس اہلکار شہید جب کہ چھ اہلکاروں کے زخمی ہوئے ہیں۔
لکی پولیس کے ترجمان شاہد حمید نے وی نیوز کو بتایا کہ تھانہ صدر پر رات کی تاریکی میں مسلح دہشت گردوں نے حملہ کیا، اور اس کے فوری بعد لکی مروت شہر سے جانے والی پولیس کی اے پی ایس گاڑی پر بھی راستے میں بم حملہ کیا گیا۔
لکی مروت : تھانہ صدر پر دہشتگردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی ڈی ایس پی لکی معہ پولیس نفری کے تھانہ صدر کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں پیروالا موڑ کے قریب IED بلاسٹ ہوا جس سے ڈی ایس پی اقبال مومند اور کانسٹیبلان وقار, علی مرجان اور کرامت اللہ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے. pic.twitter.com/hAFXyscQm8
— KP Police (@KP_Police1) March 29, 2023
دہشت گردوں کی اس دوسری کارروائی کے نتیجے میں ڈی ایس پی اقبال مہمند اپنے چار گارڈز سمیت شہید ہوگئے جب کہ ڈرائیور شدید زخمی ہوا۔
قبل ازیں لکی مروت پولیس اسٹیشن پر بھاری ہتھیاروں سے ہونے والے حملے کے نتیجے میں پانچ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
شہید اور زخمی ہونے والے اہلکاروں کو سٹی ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔
کے پی پولیس کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے کی جانے والی ٹوئٹ میں شہید اہلکاروں کے نام اور تصاویر کے ساتھ مطلع کیا گیا ہے کہ:
’تھانہ صدر پر دہشتگردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی ڈی ایس پی لکی مع پولیس نفری کے تھانہ صدر کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں پیروالا موڑ کے قریب IED بلاسٹ ہوا جس سے ڈی ایس پی اقبال مومند اور کانسٹیبل وقار، علی مرجان اور کرامت اللہ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے‘۔
ترجمان پولیس کے مطابق شہید اہلکاروں میں کرامت، وقار،علی مرجان جبکہ زخمیوں میں ہیڈکانسٹیبل فاروق،کانسٹیبل گلتیاز،اصغر،امانت اللہ،عارف، سردارعلی شامل ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی ہے اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا۔
دوسری جانب تحریک طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے حملے کی ذمہ داری قبل کرلی ہے۔
واضح رہے کہ رمضان المبارک شروع ہونے کے بعد پولیس پر یہ پہلا بڑا حملہ ہے۔ جبکہ گزشتہ کچھ عرصے سے لکی مروت میں پولیس پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
لکی مروت میں دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی اقبال مومند اور تین اہلکاروں کی نماز جنازہ پولیس لائن میں ادا کر دی گئی ہے۔
نمازِ جنازہ میں ریجنل پولیس افسر سمیت دیگر حکام نے شرکت کی۔ بعد ازاں میتوں کو ان کے آبائی علاقوں میں تدفین کے لیے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔