ہم شاید اگر واحد ریاست نہیں تو کم ازکم ان چند ریاستوں میں ضرور شامل ہیں جو قرضہ حاصل کرنے کو بھی کامیابی سمجھتی ہیں اور اس پر ایک دوسرے کے ’فہم و فراست‘ کو مبارک باد بھی دی جاتی ہے۔ جیسے وزیراعظم شہباز شریف نے گزرے سنیچر کو ایف بی آر کے ہیڈ کوارٹر میں خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے 7 بلین ڈالر کا نیا قرض پیکیج منظور کروانے کے لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی صلاحیتوں کو سراہا۔
اگلی ہی سانس میں چھوٹے میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری قرضہ ثابت ہو۔ اگر ہم قرض کے منحوس چکر سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں مشکل اقدامات کا راستہ اپنانا پڑے گا۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کی 1997 تا 12 اکتوبر 1999 تک برقرار رہنے والی جس حکومت نے ’قرض اتارو ملک سنوارو‘ مہم میں عوام کو شامل ہونے کی دعوت دی تھی، اسی حکومت نے آئی ایم ایف سے دو بار پیکیج لیتے ہوئے اعلان کیاکہ یہ آخری بار ہے۔ اس کے بعد ہم آئی ایم ایف کا کشکول توڑ دیں گے۔ دونوں مہمات کا وہی نتیجہ نکلا جو منطق کے اعتبار سے نکلنا چاہیے۔ نہ ملک سنوارا جاسکا، نہ قرض اترا، نہ کشکول ٹوٹا۔
مگر یہ صرف کسی ایک حکومت کا مسئلہ نہیں، پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام میں دسمبر 1958 میں شمولیت اختیار کی اور اب تک 23 بار رجوع کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب دور میں ملک نے جتنی صنعتی و زرعی ترقی کی اس کے بعد کبھی نہیں کی۔
مگر لوگ بھول جاتے ہیں کہ ایوب حکومت ہی تھی جس نے پاکستان کو پہلی بار آئی ایم ایف کا راستہ دکھایا اور 10 برس میں 3 بار اس کا دامن تھاما۔ سرد جنگ میں ساتھ دینے کے عوض امریکا سے جو براہِ راست غذائی، اقتصادی اور فوجی امداد مل رہی تھی وہ اس قرض کے علاوہ تھی۔ مگر اس 10 سالہ ’سنہری ترقیاتی دور‘ نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں اتنا ترقیانہ فرق پیدا کردیا کہ بنگالیوں نے اکثریت میں ہونے کے باوجود وفاق کو تین طلاق دے دی۔
بھٹو حکومت نے ہر شہری کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے کا سوشلسٹ معاشی وعدہ تو کرلیا مگر مئی 1972 سے مارچ 1977 تک اسے 5 بار آئی ایم ایف کا دامن پکڑنا پڑا۔
ضیا دور حکومت میں افغانستان میں روس کی مداخلت کے سبب گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا۔ ریگن انتظامیہ اور برادر عرب ممالک نے جی کھول کے پیسا دیا۔ اسی پیسے کے نتیجے میں ضیا دور میں اقتصادی استحکام کا سراب بھی آیا۔ اربوں ڈالر کے انجکشن کے باوجود معیشت کی اسٹرکچرل خرابیاں دور نہ ہوسکیں۔ 10 سالہ دورِ ضیا میں 1980 سے 1988 تک 4 بار آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑا۔
1993 سے 1997 تک بے نظیر اور نواز شریف حکومت کو مجموعی طور 6 بار آئی ایم ایف کا طواف کرنا پڑا۔ اس کے بعد پرویز مشرف کا ’سب سے پہلے پاکستان‘ دور شروع ہوتا ہے۔
مشرف صاحب کو بھی ان کے مصاحبین نے لوری سنائی کہ ان کی قیادت میں پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ موٹر سائیکلوں کی مانگ میں سال بہ سال بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور دیہی علاقوں کا خوشحال کاشت کار سب سے زیادہ موٹر سائیکلیں خرید رہا ہے۔
جس طرح ضیا دور کی معیشت کو افغان خانہ جنگی کے دوران ملنے والی مغربی عرب امداد نے مسلسل سہارا دیا اسی طرح مشرف صاحب کے چیف ایگزیکٹو بننے کے 2 برس کے اندر ہی دہشتگردی کے خلاف امریکی قیادت میں عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ یوں ایک بار پھر وفاداری کے بدلے آنے والی امداد سے ترقی کے غبارے میں ہوا بھری جانے لگی۔ تمام تر ڈھنڈورے بازی کے باوجود مشرف حکومت نے دو بار (2000 اور 2001) آئی ایم ایف کے دروازے پردستک دی۔
اگست 2008 میں پرویز مشرف جب ایوانِ صدر سے گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوئے تو معاشی ترقی کے سراب کا غبارہ بھی اڑ گیا اور زرداری گیلانی حکومت کو توازن ادائیگی بہتر بنانے کے لئے آئی ایم ایف کے منہ پر کشکول بجانا پڑ گیا۔
بعد ازاں نواز شریف کی تیسری حکومت کو برسراقتدار آنے کے صرف 3 ماہ بعد ستمبر 2013 میں آئی ایم ایف سے قرضہ اٹھانا پڑ گیا۔ اسی دوران 2015 میں سی پیک گیم چینجر کی اصطلاح معاشی لغت میں داخل ہوئی۔ اب یہی سی پیک گلے کا ہار بن گیا ہے۔
جب جولائی 2018 کے الیکشن کے نتیجے میں ن کی حکومت عین غین ہوگئی اور اقتدار پی ٹی آئی کو مل گیا تو عالمی رہنماؤں کے منہ پر قرضہ مارنے کی بھڑک لگانے والوں کو 2019 میں آئی ایم ایف کے در پر جانا پڑا اور یوں ایک اور پیکیج کی منظوری ہوگئی۔
دستوری مدت کے عین وسط میں عمرانی حکومت کو چلتا کرنے کے لیے جو عذر اس مقروض قوم کے سامنے پیش کیے گئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ناتجربہ کاری کے سبب ملکی معاشی تباہی روکنے کے لیے عمران کا جانا اور آزمائی ہوئی پی ڈی ایم جماعتوں کا اقتدار میں پھر سے آنا ضروری ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان میں نئی حکومت آئے اور آئی ایم ایف کے سامنے حاضر نہ ہو۔ چنانچہ اب 7 ارب ڈالر کا نیا مالیاتی پیکیج منظور کروانے کے بعد ’چنتخب‘ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اس کے بعد آئندہ ہم آئی ایم ایف کے قریب سے بھی نہیں گزریں گے۔
ہم یہ تو مان سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا شاید یہ پہلا اور آخری قرضہ ہوگا مگر ان کے بعد آنے والے اگر 24ویں بار آئی ایم ایف کے حضور پیش ہوتے ہیں تو ان کا کشکول کون توڑے گا؟
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جب توازنِ ادائیگی کے کھاتوں کو مستحکم دکھانے کے لیے برادر خلیجی ممالک کئی کئی مہینوں کے لیے 3،3 ارب ڈالر خرچ نہ کرنے کی شرط پر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتے ہیں تو پھر آئی ایم ایف کی خوشامد اور بجٹ سازی میں اس کی مداخلت کو کیوں دعوت دی جاتی ہے۔
سبب یہ ہے کہ باقی ’امدادیوں‘ کو آئی ایم ایف کے قرض پیکیج کا منجن اس دلیل کے ساتھ بیچا جاتا ہے کہ اگر دنیا کے اہم مالیاتی ادارے ہم پر اعتماد کرنے کو تیار ہیں تو پھر آپ کو ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ آئی ایم ایف کا اعتمادی سرٹیفکیٹ دکھا دکھا کر دیگر مالیاتی اداروں اور دوستوں سے مزید قرضہ پکڑ لیا جاتا ہے تاکہ اب تک لیے گئے قرضوں کا سود چکتا ہوسکے۔ باقی خسارہ اپنے ہی تنخواہ دار طبقے اور مڈل کلاس کو اور نچوڑ کر پورا کرلیا جاتا ہے۔ مڈل کلاس کو یہ چورن بیچا جاتا ہے کہ اضافی ٹیکس ہم نے نہیں لگائے بلکہ آئی ایم ایف نے کنپٹی پر پستول رکھ کے لگوائے ہیں۔
تاہم جو چورن 1958 سے اب تک بیچا گیا، متوسط طبقہ اب اسے مزید ماننے کو ہرگز آمادہ نہیں۔ ایک طرف تو کمر توڑ بجٹ پارلیمان سے منظور کروا لیا گیا اور پھر یہی منظوری دینے والے ارکان ٹسوے بھی بہا رہے ہیں کہ یہ سب آئی ایم ایف کا کیا دھرا ہے۔
آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے تو بے وقوف بنا سکتے ہیں مگر سب لوگوں کو مستقل بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ حکمران اشرافیہ نے خود کو معاشی تپش سے محفوظ رکھنے کے لیے جو کرنا تھا کرلیا۔ اب عام آدمی کی باری ہے کہ وہ سری لنکا اور کینیا کے لوگوں کی طرح ’بس بہت ہوگیا‘ کا نعرہ لگاتا ہے یا پھر اسی تنخواہ پر حسب ِ معمول کام کرنا قبول کر لیتا ہے۔
اب نہ ریاست کے سامنے کوئی آپشن بچا ہے اور نہ عوام کے لیے اسی راستے پر چلتے رہنے کی طاقت بچی ہے۔ فیصلہ دونوں میں سے کسی ایک کو کرنا ہے کہ یا تو معاشی ڈھانچے میں حقیقی اصلاحات لاؤ یا اپنا ڈھانچہ تب تک خود ہی چباتے رہو جب تک آخری ہڈی پسلی تک نہیں چب جاتی۔