یہ ہے خیبر پختونخوا کے ضلع اَپردیر کے علاقے تھل کوہستان کی تاریخی ’ جامع مسجد دارالسلام‘ جو ضلعی ہیڈکوارٹر دیر سے مشرق کی جانب 95 کلومیٹر کی مسافت پر مشہور سیاحتی مقام کمراٹ کے گیٹ وے تھل بازار میں واقع ہے۔
تھل کی تاریخی مسجد دارالسلام کے بارےمیں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس کے قیام کو 2 صدیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ پہلی بار اسے سال 1852ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔
تھل سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ محمد شفیع کا کہنا ہے کہ انہیں ان کے والد نے بتایا تھا کہ ’یہ مسجد پہلی بار 1852ء میں بنائی گئی مگر کچھ ہی سالوں کے بعد آتشزدگی کی وجہ سے شہید ہو گئی‘۔
محمد شفیع کا کہنا تھا کہ اسے تیسری مرتبہ 1952ء میں تعمیر کیا گیا تاہم اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر دیودار اور صنوبر کی قیمتی لکڑی سے بنائی گئی ہے۔
مسجد کی تعمیر کے لیے لکڑی کہاں سے لائی گئی؟
جس زمانے میں گاڑیاں تھیں نہ پکی سڑکیں ،اور لکڑی کاٹنے کے جدید آلات بھی میسر نہیں تھے تو تھل کی مختلف اقوام نے مسجد کے لیے مشترکہ کوشش کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کی مدد سے تناور درختوں کو جنگل سے یہاں لانے کا فیصلہ کیا۔ پشتو زبان میں اسے ’آشر‘ کہا جاتا ہے جس کے ذریعے بڑے تناور درخت جنگل سے کاٹ کر دوسری جگہ منتقل کیے جاتے ہیں۔
مسجد کی تعمیر میں جنات بھی شریک تھے؟
اس تاریخی مسجد میں لگائے جانے والے لکڑی کے شہیتر اور ستونوں کا سائز آج کے زمانے میں بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس مسجد میں موجود ستونوں کی چوڑائی اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ایک انسان اس کے ایک طرف کھڑا ہو جائے تو دوسری طرف سے دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ستون اندازاً 15 سے 22 فٹ طویل ہے جب کہ اس میں استعمال کیے گئے شہتیر 10 سے 12 فٹ چوڑے ہیں۔
انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ 2 صدی قبل اتنے بھاری بھرکم درختوں کو جنگل سے یہاں تک کس طرح لایا گیا ہوگا؟
تناور درخت
تھل سے ہی تعلق رکھنے والے امجد خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے بزرگوں کے بقول جنگل سے اتنے بڑے بڑے تناور درخت کندھوں پر لانا انتہائی مشکل اور نہ مانے والی بات ہے لیکن اس بارے میں بزرگ کہتے ہیں کہ اس وقت مضبوط جسامت کے انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات بھی مسجد تک لکڑی پہنچانے کے کار خیر میں شامل تھے۔
امجد خان کے مطابق مسجد میں لگائے جانے والے دیودار کی قیمتی لکڑی سے پر کندہ نقش و نگار سادہ و دلکش ہیں۔ جبکہ اس کے بالائی منزل میں اب بھی قیمتی دیودار لکڑی کی ڈیکوریشن کا کام جاری ہے۔ کیونکہ اس مسجد کو تیسری بار بنایا گیا ہے۔
سیاحوں کی توجہ کا مرکز
پچھلے کئی برس سے خیبرپختونخوا کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر سے ہزاروں افراد مسجد دیکھنے آتے ہیں۔ اور یہ دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں کہ مسجد میں اتنے بڑے بڑے ستون اور شہتیر کس طرح لگائے گئے ہیں؟
جنت نظیر سیاحتی مقام کمراٹ آنے والے سالانہ لاکھوں سیاحوں کے لیے تھل بازار کے مقام پر شیشے جیسے شفاف دریا پنجکوڑہ کے کنارے پہلا پڑاؤ یہی مسجد ہوتا ہے۔ جہاں سیاح دوستوں اور فیملی کے ہمراہ اس مسجد کی سیر کیے بغیر کمراٹ کی طرف آگے نہیں بڑھتے۔
اندرون و بیرون ملک سے آنے والے سیاح اس تاریخی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے علاوہ مسجد کی تاریخی حیثیت کو کیمروں اور موبائل میں محفوظ کرکے ساتھ لے جاتے ہیں۔ سیاح یہاں کے خنک موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی مسجد کے احاطے یا دریائے پنجکوڑہ کنارے کچھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔