ماربرگ وائرس نے شمال مغربی تنزانیہ میں پانچ افراد کی جان لے لی ہے۔
ماربرگ وائرس سے پھیلنے والی بیماری انتہائی متعدی بیماری ’ایبولا‘ سے ملتی جلتی ہے، جس کی علامات میں بخار، پٹھوں میں درد، اسہال، اُلٹی اور بعض صورتوں میں خون کی شدید کمی سے موت کا واقع ہونا شامل ہے۔
حالیہ برسوں میں افریقہ میں اس بیماری سے سیکڑوں افراد اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
ماربرگ وائرس کیا ہے اور یہ کتنا خطرناک ہے؟
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ماربرگ وائرس سے متاثر ہونے والے اوسطاً نصف لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔
اس وائرس کی شناخت پہلی بار 1967 میں ہوئی تھی جب 31 افراد متاثر ہوئے تھے اور جرمنی کے ماربرگ اور فرینکفرٹ جب کہ سربیا کے بلغراد میں اس بیماری کے بیک وقت پھیلنے سے سات افراد کی موت ہوگئی تھی۔
ماربرگ وائرس سب سے پہلے افریقی سبز بندر میں پایا گیا:
انسانوں میں یہ زیادہ تر ان لوگوں سے پھیلتا ہے جنہوں نے چمگادڑوں سے آباد غاروں اور کانوں میں طویل عرصہ گزارا ہے۔ انگولا میں 2005 میں پھیلنے والی اس وبا میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تاہم، باقی دنیا میں، پچھلے 40 سالوں میں ماربرگ وائرس سے صرف دو افراد ہلاک ہوئے ہیں ان میں ایک شخص یورپی باشندہ تھا اور جب کہ دوسرے کا تعلق امریکا سے تھا۔
سب سے زیادہ کیسز کہاں ریکارڈ کیے گئے ہیں؟
تنزانیہ کے شمال مغربی علاقے کاگیرا میں اس بیماری سے پانچ افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ تین دیگر افراد ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور حکام نے 161 ایسے افراد کا سراغ لگایا ہے جو اس بیماری کا شکار ہوئے ہیں۔
اس بیماری کی دریافت کے بعد سے اب تک مختلف ممالک میں ہلاکتوں کا ڈیٹا درج ذیل ہے:
2022، گھانا: تین کیسز، دو اموات
2017، یوگنڈا: تین کیسز، تین اموات
2012، یوگنڈا: 15 کیسز، چار اموات
2005، انگولا: 374 کیسز، 329 اموات
1998-2000، ڈی آر کانگو: 154 کیسز، 128 اموات
1967، جرمنی/سربیا: 31 کیسز، سات اموات
ماربرگ وائرس کی علامات کیا ہیں؟
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس بیماری کا شکار بہت سے لوگوں کے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور کچھ بیمار ہونے کے آٹھ سے نو دن بعد مر جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی متاثرہ شخص کا خون یا مادہ تولید میں اس بیماری کے وائرس موجود ہوسکتے ہیں۔
اس کا علاج کیسے ہو سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق فی الوقت اس وائرس کا کوئی خاص علاج یا کوئی ویکسین نہیں ہے۔ لیکن ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ خون کی مصنوعات، ادویات اور مدافعتی علاج کی ایک رینج تیار کی جا رہی ہے۔
اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟
ایک بین الاقوامی ادارہ صحت کے مطابق افریقہ میں لوگوں کو جنگلی جانوروں کا گوشت کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان علاقوں میں جہاں یہ وبا پھیلی ہو، خنزیر کا گوشت کھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔