ملک کے سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت گرانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا کسی صورت ساتھ نہیں دے گی۔
جیو ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ویٹرن صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پیپلز پارٹی ہوش و حواس میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کو موجودہ حکومت گرانے کے لیے اپنا کندھا پیش کرے۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ویسے بھی آج کل تحریک انصاف کا جو موڈ ہے اس سے لگتا نہیں کہ پیپلز پارٹی اس کا ساتھ دے گی۔
پیپلز پارٹی نے مقتدرہ سے نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، سہیل وڑائچ
سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ سے جب پوچھا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے مدد فراہم کرے گی تو ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو وفاقی و پنجاب حکومت سے کافی اختلافات ہیں لیکن وہ مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) کے خلاف بھی نہیں جانا چاہتے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم مقابلے کے لیے تیار، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے، اسد قیصر
سہیل وڑائچ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا جو ماضی کا تجربہ رہا ہے کہ (اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کے نتیجے میں) ان کے 2 وزرا اعظم کو جانا پڑا، ان کے لیڈروں و کارکنوں نے جیلیں کاٹیں اور کوڑے سہے تو انہوں نے بظاہر اب یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ انہیں مقتدرہ سے نہیں لڑنا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقتدرہ اگر ن لیگ کے ساتھ ہے تو پھر پیپلز پارٹی مقتدرہ کے خلاف جاکر ن لیگ سے اتحاد نہیں توڑے گی اور وہ کیوں خود کو مشکل میں ڈالے گی۔
عمران خان مکمل اختیار کا حصول چاہتے ہیں، عاصمہ شیرازی
سینیئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ انہیں اس بات کا امکان نہیں لگتا کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ن لیگ کی حکومت گرانے پر رضامند ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ ویسے بھی عمران خان کسی اتحاد کے موڈ میں نظر نہیں آتے وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ اختیار ان کے پاس ہو اور مکمل ان کے پاس ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیشک تحریک انصاف کے دوسرے لیڈرز کچھ بھی کہتے رہیں لیکن جب تک عمران خان ایسے کسی اتحاد یا مفاہمت کے بارے میں فیصلہ نہیں کریں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیے: کسی سیاسی جماعت پر پابندی یا غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں فضول ہیں، فرحت اللہ بابر
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات کریں گے تو وہ ’مائنس آرمی چیف‘ کی شرط پر کرنا چاہیں گے اور اگر وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں گے تو اس کی شرط ’مائنس نواز و زرداری‘ ہوگی جو ظاہر ہے ایک ڈیڈ لاک کی جانب ہی لے کر جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی عمران خان کو معلوم ہے کہ عدلیہ کی سپورٹ ان کے ساتھ ہے تو وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات یا مفاہمت کی طرف نہیں جائیں گے اور وہ ویسے بھی ایک متوازی نظام کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ اس وقت ’جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ ہے‘ اس لیے وہ مفاہمت کی جانب نہیں جائیں گے کیوں کہ عمران خان پورے طمطراق کے ساتھ اقتدار میں آنا چاہیں گے نہ کہ کسی مفاہمت کی بنیاد پر ملنے والی حکومت اپنائیں۔
حکومت کا یہ ’پرو ہائبرڈ ورژن عسکری ٹیپ‘ سے جڑا ہوا ہے، منیب فاروق
جب اینکر شاہ زیب خانزادہ نے پروگرام میں موجود صحافی منیب فاروق سے سوال کیا کہ تحریک انصاف کسی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا تو نہیں چاہتی لیکن اس کی طرف سے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی سے مل کر موجودہ حکومت گرادے گی تو اس پر ان کی کیا رائے ہے۔ اس پر میب فاروق کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اور سارا نظام ’عسکری ٹیپ‘ سے جڑا ہوا ہے اور یہ چپکانے والی پٹی جس کوڈ سے کھلتی ہے وہ حکومت کے پاس نہیں بلکہ وہیں ہے جہاں ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے سے پیپلز پارٹی کو بےخبر رکھا گیا، شیری رحمان
پی ٹی آئی پر پابندیوں کی باتوں کے تناظر میں منیب فاروق نے کہا کہ انہوں نے اب تک صدر آصف زرداری اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے منہ سے اور ایم کیو ایم کے منہ سے بھی یہ نہیں سنا کہ کسی سیاسی پارٹی پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
منیب فاروق نے کہا کہ سنہ 2018 کی عمران خان کی حکومت ’ہائبرڈ‘ تھی، پھر ’ہائبرڈ 2‘ آئی اور اب یہ موجودہ حکومت ’ہائبرڈ پرو روژن‘ ہے اس لیے لوگ جس ’تنخواہ پر سارے کام کر رہے ہیں اسی پر کرتے رہیں گے‘ ہاں اگر ارباب اختیار کی مرضی ہوگی تو پھر تو بہت کچھ بدل جائے گا جس طرح پہلے بدلتا رہا ہے۔