میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کورونا میں مبتلا ہوگئے ہیں، جس کے بعد انہوں نے تمام سیاسی مصروفیات ترک کرتے ہوئے خود ساختہ تنہائی اختیار کرلی ہے، وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جوبائیڈن اسی طرح اپنے فرائض ادا کرتے رہیں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اپنی دوسری مدت صدارت کے لیے لاس ویگاس میں انتخا بی مہم پر تھے جب ان کے کووڈ ٹیسٹ کے مثبت آنے کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد وہ خطاب بھی نہیں کر سکے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ 81 سالہ امریکی صدر جوبائیڈن کو کورونا وائرس کی معمولی علامات ہیں اور ٹیسٹ مثبت آنے پر انہیں کورونا ویکسین بھی لگادی گئی ہے۔
واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن اس وقت کووڈ میں مبتلا ہوئے ہیں جب ان کی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے باضابطہ نامزدگی پر خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں کی بڑھتی مخالفت کے سبب ان کی بطور صدارتی امیدوار باضابطہ نامزدگی ملتوی کردی گئی ہے جبکہ دوتہائی ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کو دوسری مدت کے لیے صدارتی امیدوار نہ بنایا جائے۔
ٹرمپ پر حملے کے بعد بائیڈن کا پہلا خطاب
تاہم اس سے قبل ری پبلیکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنا پہلا خطاب سیاہ فام ووٹروں سے ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس میں کیا، جہاں انہوں نے ٹرمپ پر حملے کو انتہاپسندی اور اسلحہ کے بل پر تشدد سے منسلک قرار دیا۔
امریکی شہری حقوق کی تنظیم ’نیشنل ایسوسی ایشن آف دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل‘ کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کریں اور تشدد کی اس کی ہر شکل میں مذمت کریں۔
ٹرمپ پر حملے کے تناظر میں گن کنٹرول پر زور
ہفتے کے روز پینسلوینیا میں انتخابی ریلی کے دوران ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بائیڈن نے اسلحہ پر کنٹرول اور نیم خودکار ہتھیاروں پر دوبارہ پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فائرنگ سے جہاں وہ خود زخمی ہوئے وہیں حاظرین میں شامل ایک شخص ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
امریکی صدر بائیڈن نے خصوصیت کے ساتھ بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر فائرنگ کے واقعہ میں اے آر۔15 مشین گن کا استعمال کیا گیا، جو بالکل اسی طرح کا مہلک ہتھیار ہے جس سے پہلے بھی بچوں سمیت بہت سی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں ان ہتھیاروں کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ وی ایک بار ایسا کرچکے ہیں اور اب دوبارہ کریں گے۔
بائیڈن کی نامزدگی پر اٹھتے سوالیہ نشان
دوسری جانب ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے امریکی صدر جو بائیڈن کی بحیثیت صدارتی امیدوار نامزدگی بھی خطرے سے دوچار ہے کیونکہ ان گزشتہ ماہ صدارتی مباحثے میں ٹرمپ کے مقابلے میں کمزور کارکردگی نے ان کی عمر اور ذہنی صحت سے متعلق سوالات کو جنم دیا ہے۔
شکاگو یونیورسٹی سے وابستہ امریکی سیاسیات کے پروفیسر ولیم ہاویل سمجھتے ہیں کہ صدر بائیڈن کے مخالف صدارتی امیدوار ٹرمپ پر قاتلانہ حملے نے ان کی نامزدگی سے وابستہ پیچیدگیوں میں ایک اور پرت کا اضافہ کر دیا ہے۔
وائس آف امریکا سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ صدر بائیڈن کو فی الحال بالادست ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ صدارتی عہدے کے لیے اپنی فٹنس سے متعلق خدشات کو دور کرنا ہوگا، کیونکہ ٹرمپ کی اس ہفتے ری پبلکن نیشنل کنونشن میں باضابطہ طور پر ان کی بحیثیت صدارتی امیدوار نامزدگی کے بعد انہیں ری پبلیکنز کی جانب سے بہت زیادہ توقیر مل رہی ہے۔
بائیڈن کمزور یا ٹرمپ طاقتور ؟
سیاسی اعتبار سے صدر جو بائیڈن اس وقت قومی سطح کے رائے عامہ کے جائزوں سمیت ان بیشتر ریاستوں میں، سابق صدر ٹرمپ سے پیچھے ہیں، جن کا جھکاؤ الیکشن کے وقت کسی بھی صدارتی امیدوار کے حق میں جاسکتا ہے۔
کانگریس کے کم ازکم 20 ڈیموکریٹس اور اپنی پارٹی کے اندر موجود دیگر افراد کی طرف سے الیکشن سے دستبرداری کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کا مسلسل اصرار ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے وہ سب سے بہتر ڈیموکریٹ ہیں۔
دوسری جانب ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکیوں سے اتحاد و اتفاق کے مظاہرے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اتحاد و ہم آہنگی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے کنونشن کے لیے اپنی تقریر کو دوبارہ تحریر کیا ہے۔
یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں ’سینٹر فار ایتھکس اینڈ رول آف لا‘ کی ڈائریکٹر کلیئر فنکلسٹین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت ہر ایک یکجہتی پر زور دے رہا ہے ۔’ بلاشبہ اتحاد کے بارے میں ٹرمپ کا وژن یہ ہے کہ ملک کو ان کے پیچھے متحد ہونا چاہیے‘۔
پروجیکٹ 538 کی جانب سے امریکی رائے عامہ کے مختلف تازہ ترین جائزوں کا اوسط مرتب کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ریاست نیواڈا میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 4.7 فی صد سے برتری حاصل ہے۔