کنفیوشس نے کہا تھا کہ ایک بدطینت شخص ایک قوم کو انتشار کی کگر تک لا کر ابتر کر سکتا ہے۔پاکستان کو اپنی شکستہ تاریخ میں ایسے کئی بدطینتوں سے واسطہ پڑا جن کے اعمال نے قوم کی راہ کھوٹی کی۔ عدلیہ کی تاریخ میں جسٹس محمد منیر سے زیادہ بدطینت شخص غالباً کوئی نہیں گزرا۔ انہیں تاریخ کے اہم موقعوں پر تولا گیا تو وہ بہت ہلکے نکلے۔ ان کے فیصلوں نے قومی وجود پر وہ کاری وار کیے جن کے زخم ستر برس بعد بھی مندمل نہیں ہو سکے۔ انہی حضرت کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ عدلیہ کے خیمے میں گھسی۔ نظریہ ضرورت کا آسیب بھی جسٹس منیر کی دین ہے۔
ذاتی حوالے سے یادِ ماضی عذاب نہیں لیکن تاریخ پاکستان کے بعض ابواب کی یاد رنج میں مبتلا ضرور کرتی ہے۔ اس کٹی پھٹی تاریخ کا ایک سیاہ باب عدلیہ کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی کا ایک غیر مثالی نمونہ جسٹس منیر ہیں۔
ان کا خیال آتا ہے تو کتابوں میں ان کے بارے میں پڑھے کئی واقعات ذہن کی لوح پر ابھرتے ہیں جو ان کی شخصیت کا نہایت خراب امیج بناتے ہیں۔ اس سے ان کی ‘غیر نصابی’ سرگرمیوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً کہیں وہ 1958 کے مارشل لاء کے بعد ایک اجلاس میں ایوب خان کو الٹے سیدھے مشورے دیتے نظر آتے ہیں اور کہیں آمرِ اول کے ساتھ شکار کھیل رہے ہیں۔کہیں سعادت حسن منٹو کی ان پر تنقید کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے تو کہیں گورنر جنرل غلام محمد سے ان کے خفیہ روابط پر نظر جاتی ہے۔
نامور قانون دان حامد خان کی کتاب ‘ اے ہسٹری آف دی جوڈیشری ان پاکستان’ میں ان کے خلافِ میرٹ چیف جسٹس بننے کی کتھا بھی خوں رلاتی ہے۔ ان سب حوالوں پر مستزاد ان کی کتاب ‘ فرام جناح ٹو ضیاء’ ہے جس میں وہ بنگالیوں سے جان چھڑانے کے اپنے فارمولے کا ذکر کرتے ہیں۔ انصاف پروری میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ انہوں نے ایوب خان کا وزیر قانون بن کر پوری کر دی۔
جسٹس محمد منیر کی ذات سے جڑے جن واقعات کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اب انہیں کھول کر بیان کرتے ہیں۔
اللہ اللہ کرکے 1956 میں آئین بنا تھا جسے طالع آزماؤں نے ڈھائی برس بعد توڑ کر ملک پر قبضہ کر لیا۔آئین شکنی پر مضطرب ہونے کے بجائے چیف جسٹس صاحب اسکندر مرزا کی صدارت میں منعقدہ میٹنگ میں تشریف لے گئے۔ انسان کم سے کم اپنا نہیں تو منصب کی توقیر کا ہی پاس کر لیتا ہے۔جسٹس منیر نے میٹنگ میں جنرل ایوب خان کے سوالوں کے جواب میں جو فرمایا اس سے ان کی ذہنی پستی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
موقعے کے گواہ کی حیثیت سے اصغر خان ‘ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا’ میں لکھتے ہیں:
‘میٹنگ میں ایوب خان نے جسٹس محمد منیر سے پوچھا کہ نئے آئین کی منظوری کیسے حاصل کی جائے؟ جسٹس منیر کاجواب بڑا برجستہ اور حیران کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام تو بہت آسان ہے۔ پرانے وقتوں میں یونانی ریاستوں میں آئین کی منظوری عوامی تائید سے لی جاتی تھی، پاکستان میں بھی ایسا کیاجاسکتا ہے۔ ایوب خان نے عوامی تائید کا مطلب دریافت کیا تو جسٹس منیر نے جواب دیا جب آئین کا مسودہ تیار ہو جائے تو اسے قومی پریس کے ذریعے مشتہر کر دیا جائے۔ اس کے فوراً بعد ایوب خان نشتر پارک کراچی، پلٹن میدان ڈھاکہ، موچی گیٹ لاہور اور چوک یادگار پشاور میں جلسہ ہائے عام سے خطاب کریں جس میں وہ پچھلے دنوں اخبارات میں چھپنے والے آئین کا ذکر کرکے اس کی منظوری حاصل کریں۔ عوام کا جواب یقیناً مثبت ہو گا۔ یہ ہے مطلب عوامی تائید کا۔
میٹنگ میں موجود تمام افراد نے بے ساختہ قہقہ لگایا، ایوب خان کا قہقہ سب سے زیادہ زور دار تھا۔ ایوب خان نے اگرچہ اس مشورے پر عمل نہ کیا لیکن پاکستان کے چیف جسٹس کی طرف سے یہ ایک انتہائی سنجیدہ مشورہ تھا۔ اس لیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اسی وقت سے ہمارے لیے مارشل لا سے چھٹکارا حاصل کرنا انتہائی دشوار ہو گیا تھا۔’
اب مارشل لاء سے چار سال پیچھے چلتے ہیں۔ 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کی آئینی ترامیم سے برافروختہ ہو کر اسمبلی برخاست کر دی۔ بنگالی سپیکر مولوی تمیز الدین خان نے گورنر کے اس اقدام کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ اس کے لیے انہیں ہفت خواں طے کرنے پڑے۔ انہیں خریدنے کی کوشش ہوئی۔ عہدوں کا لالچ دیا گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا۔ گھر کے باہر پہرہ بٹھا کر عدالت کا رخ کرنے سے باز رکھنے کی سعی ہوئی جسے انہوں نے برقع پہن کے ناکام بنایا۔ گھر کے پچھلے دروازے سے رکشہ پر ’فرار‘ ہو کر انصاف کی دہلیز تک پہنچے۔ عدالت میں ان کی شنوائی ہوئی۔سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کانسٹنٹائن اور بینچ میں شامل دیگر تین ججوں نے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ انہیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
اس فیصلے سے غلام محمد جز بز ہوئے۔ اب ان کی ساری امیدیں فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر سے وابستہ تھیں۔ بدقسمتی سے وہ ان پر پورا اترے۔
ممتاز تاریخ دان عائشہ جلال کی کتاب ‘ دی سٹیٹ آف مارشل رول’ سے معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس منیر سے مشاورت کے بعد ہی غلام محمد نے سکون کا سانس لیا تھا۔ انہوں نے نو اگست 1986 کے ڈان اخبار میں سلطان احمد کے مضمون کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق جسٹس منیر نے حکومت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو وہ اپ سیٹ کر دیں گے۔
انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنانے کے لیے دورانِ مقدمہ چیف جسٹس اور گورنر جنرل رابطے میں رہے جس کے لیے وچولے کا کردار فرخ امین نے ادا کیا۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں:
‘جس زمانے میں یہ ریفرنس فیڈرل کورٹ کے زیر غور تھا، میں نے دیکھا کہ میرا ڈپٹی سیکرٹری فرخ امین ہر دوسرے تیسرے روز مجھے بتائے بغیر لاہور آ جا رہا ہے۔ ایک روز میں نے اسے ڈانٹا کہ میری اجازت کے بغیر وہ اتنی بار لاہور کیوں آتا جاتا ہے؟ اس نے صاف گوئی سے کام لے کر بتایا کہ وہ گورنر جنرل کا کوئی خفیہ پیغام کوڈ ورڈز کی صورت میں چیف جسٹس مسٹر منیر کے پاس لے جاتا ہے اور وہاں سے اسی طرح کوڈڈ الفاظ میں چیف جسٹس کا پیغام گورنر جنرل کو لا کر دیتا ہے۔’
اب ذرا بات جسٹس منیر کے چیف جسٹس بننے کی ہو جائے۔ حامد خان نے ‘ اے ہسٹری آف دی جوڈیشری ان پاکستان’ میں بتایا ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد نے سپریم کورٹ میں سینئر موسٹ جج اے ایس ایم اکرم جن کا تعلق بنگال سے تھا انہیں سازش کے ذریعے چیف جسٹس نہیں بننے دیا اور اپنی برادری کے جسٹس منیر کو چیف جسٹس بنانے کے لیے راہ ہموار کی۔
جسٹس اے ایس ایم اکرم مشرقی بنگال ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے اور پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبد الرشید کی غیر موجودگی میں قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے بھی انہوں نے فرائض انجام دیے تھے۔
جسٹس منیر طاقت سے مرعوب تھے۔ اس لیے غلام محمد ہی نہیں ایوب خان سے بھی انہوں نے یارانہ گانٹھ لیا تھا۔ ڈوسو کیس میں مارشل لاء کو کامیاب انقلاب دے کر اسے جائز قرار دینے کا غیر منصفانہ فیصلہ بھی جسٹس منیر کا ’شاہکار‘ تھا۔ وہ غلام محمد اور ایوب خان کے ہاتھوں استعمال نہ ہوتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوسکتی تھی۔
ایوب و منیر کے مثالی تعلق کی ایک مثال، صاحبِ اسلوب نثر نگار مختار مسعود نے ‘حرفِ شوق’ میں یوں رقم کی ہے:
’ شکار سوڈھی جے وال میں کھیلا گیا جو دامن کوہستان نمک میں واقع ہے۔ جشن کا سماں تھا، خوش گزرانی، دھوم دھام، شان و شوکت، تشریفاتِ سلطنتی، امتیازاتِ نظامی، نہ جانے تیتروں کو کیسے پتا چل گیا کہ مہمانانِ خصوصی میں سے ایک بری فوج کے سربراہ ہیں اور دوسرے عدلیہ کے رئیس۔ وہ غول در غول امیر خسرو کے مشہور شعر کی تفسیر بنے سربکف چلے آرہے تھے۔ بہ امید آں کہ روزے بشکار خواہی آمد۔ اس تقریب کے دو سال بعد ان دو مہربانوں نے چند اور شکاریوں کے ساتھ مل کر ملک کی آئین ساز اسمبلی اور اس کے جمہوری مستقبل کا شکار کھیلا۔ انہیں روکنے کی عملی کوشش سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر جارج کانسٹنٹائن اور فیڈرل کورٹ کے جسٹس کارنیلیس نے کی مگر بے سود۔‘‘
جسٹس منیر بنگالی جج کی جگہ چیف جسٹس بنے اور ایوب دور میں بنگالی وزیر قانون کے مستعفی ہونے پر انہیں وزیر قانون بنایا گیا۔ ججوں کو بعد از ریٹائرمنٹ عہدے عام طور پر ان کی سابقہ خدمات کے عوض ہی دیے جاتے ہیں۔
اسمبلی میں بنگالیوں کی شکووں بھری تقریریں ایوب خان اور جسٹس منیر کی سماعتوں پر بہت گراں گزرتی تھیں۔ ایوب خان اسمبلی میں بنگالیوں کے الزامات کا جواب نہ دیے جانے پر بھی ناخوش تھے۔ ایسے میں وزیر قانون نے انہیں بنگالیوں سے جان چھڑانے کا مشورہ دیا۔کہا کہ جب ملک کے دونوں حصوں کے مزاج میں امتزاج نہیں اور مشترکہ مقاصد بھی ان کے نہیں تو کیوں نا بنگالیوں سے اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے کہا جائے۔
ایوب خان نے اس تجویز پر صاد کیا اور انہیں مشرقی پاکستان کی کسی بااثر سیاسی شخصیت سے بات کرنے کا ٹاسک دیا۔ جسٹس منیر نے بنگالی وزیر رمیض الدین کے سامنے خیالاتِ عالیہ رکھے تو انہوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ کیا وہ علیحدگی کی بات کر رہے ہیں؟ اس پر جسٹس منیر بولے ہاں علیحدگی یا پھر کنفیڈریشن اور زیادہ خود مختاری۔ رمیض الدین نے کہا ہم اکثریت میں ہیں اس لیے علیحدہ تو اقلیتی صوبے کو ہونا چاہیے، ہم تو پاکستان ہیں۔
ان وزیرِ محترم کو کیا خبر تھی کہ دس سال بعد ہمارے عسکری و سیاسی بزرجمہر اکثریت کو الگ کر کے انوکھی تاریخ رقم کر دیں گے۔ جسٹس منیر کی تجویز کی بیل منڈھے نہ چڑھی لیکن اس سے ایوب اور ان کے فاضل وزیر قانون کی بنگالیوں کے بارے میں سوچ کا واضح اظہار ہوتا ہے۔
خیر سے ان باتوں کے راوی عزت مآب جسٹس منیر خود ہیں اور وہ یہ سب اپنی کتاب ‘ فرام جناح ٹو ضیاء ‘ میں بیان کر کے دنیا سے سدھارے ہیں۔
ایوب خان اور جسٹس منیر میں یہ قدر مشترک ہے کہ ایک نے سیاست تو دوسرے نے عدالت میں بنگالیوں کے ساتھ ناانصافی کی۔ ایک کے سیاسی اور دوسرے کے عدالتی فیصلوں نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بوئے۔
جسٹس منیر کے خلاف قائم ہمارے اس مقدمے کے آخری گواہ سعادت حسن منٹو ہیں۔ وہ بھی جسٹس منیر کے انصاف کی دستبرد سے نہ بچ سکے۔ ممتاز نقاد مظفر علی سید کے سامنے منٹو نے اپنا دکھڑا یوں بیان کیا:
’ اس دن تم نے ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھا تھا، جسٹس منیر کی بازی گری کا نمونہ جب کہ سیشن جج عنایت اللہ درانی نے جو ایک ڈاڑھی والا دین دار شخص تھا، مجھے بری کر دیا تھا۔اس لیے کہ اسے اپنے ایمان پر اعتماد تھا کہ کوئی نہیں کہہ سکے گا انہوں نے فحاشی کی پشت پناہی کے لیے منٹو کو کھلا چھوڑ دیا۔ لیکن جسٹس منیر کو تم جانتے ہو، یہ اعتماد حاصل نہیں تھا اس لیے مجھے عمر بھر کے لیے ماخوذ کر دیا۔ اب میں ان سے کیسے پوچھوں کہ حضور، کیا لکھوں، کیا نہ لکھوں؟ عجیب مخمصے میں ڈال دیا اس یک رخے آدمی نے۔‘
اس بیان کے حوالے سے مظفر علی سید نے لکھا کہ جسٹس منیر کے بارے میں منٹو صاحب کی بصیرت بہت تہہ دار تھی۔