سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کی سینیٹ نے بھی منظوری دے دی۔ بل کی حمایت میں 60 جبکہ مخالفت میں 19 سینیٹرز شمار کیے گئے۔
صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس میں مذکورہ بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنےکی اپوزیشن کی تحریک مسترد کرتے ہوئے بل فوری طور پر منظور کرنے کی تحریک منظور کی گئی۔
اپوزیشن کے سینیٹرز نے اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے پہنچ کر عدلیہ کی حمایت میں نعرے لگائے اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اس دوران سینیٹ میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز کے درمیان حصار بنالیا جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔
بل کو کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔ بل کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔
ایوان میں ترمیمی بل پیش کرنے کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز برابر ہیں۔ اداروں کی دیرپا ترقی کے لیے شخصیت کے بجائے نظام کو مضبوط کیا جائے۔
’قومی اسمبلی نے گزشتہ روز سپریم کورٹ بل 2023 پاس کیا۔ اس نوعیت کی قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں نیا رجحان دیکھا جب کہ آئینی رو سے کسی بھی ادارے کی حدود میں غیر ضروری مداخلت نہیں کی جاسکتی۔‘
اعظم نذیر تارڑ کے مطابق ملکی عدالتی تاریخ میں بارہا سربراہِ مملکت کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ ایسے ایسے ازخود نوٹس لیے گئے جن میں گلیوں میں صفائی تک کے معاملات شامل رہے۔ یہاں تک کہ جگر کا ہسپتال بھی چیف جسٹس کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھ گیا۔
’بار کی جانب سے از خود نوٹس کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا اس کے علاوہ از خود نوٹس کے باعث اربوں ڈالرز کے نقصانات ریاست کو اٹھانا پڑے اس ضمن میں ریکوڈیک اور اسٹیل ملز کا نقصان بھی ہوا۔‘
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اب سپریم کورٹ سے بھی اس حوالے سے بات آئی، اجتماعی سوچ ہی لوگوں کو آگے لےکر چلتی ہے، اب بینچ کے لیے کمیٹی میں تین ارکان فیصلہ کریں گے۔
’آخری فل کورٹ اجلاس 2019 میں ہوا، جب 184 تین کے تحت از خود نوٹس ہو تو کمیٹی اس کا جائزہ لےگی اور جہاں آئین کی تشریح درکار ہو تو پانچ ججز کا بینچ ہوگا۔‘
مذکورہ بل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وہ اس نوعیت کے اہم معاملہ کو کمیٹی میں نہ بھیجنے کی اپنی حکومت میں بھی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
’بل کے وقت پر اعتراض ہے۔ ابھی اس سےمتعلق الیکشن کا کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ سپریم کورٹ میں آئینی مسئلہ پر بحث ہو رہی ہے۔ عدالت نے دریافت کیا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ پیسے نہ ہونے پر انتخابات میں تاخیر کی جاسکتا ہے۔‘
سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کیا ہم آئینی ترمیم کے بغیر 184/3 میں ترمیم کر سکتے ہیں، 184/3 میں صرف آئینی ترمیم کی جا سکتی ہے۔ آپ ایسے قانون پاس کریں گے تو آئندہ 15 دن میں یہ قانون کالعدم قرار دے دیا جائےگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کثرت رائے سے منظور کیا ہے۔