شفقت محمود کا سیاسی سفر، بےنظیر بھٹو سے عمران خان تک

منگل 23 جولائی 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شنید ہے  شفقت محمود نے سوچ بچار کے بعد سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ سیانے لوگوں کی یہی ادا مجھے بھاتی  ہے کہ وہ ہر فیصلہ سوچ بچار کے بعد کرتے ہیں۔ شفقت محمود کے سیاسی سفر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ اس لیے سیاسی وابستگی اور نظریات بدل لینے سے انہیں عار نہ تھی۔

اٹھارہ برس بیوروکریٹ کی حیثیت سے سروس کرنے کے بعد وہ سیاست میں آئے۔ بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر آخری سرکاری ذمہ داری نبھائی۔ نوکری کے بندھن سے آزاد ہو کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔  پیپلز پارٹی سکریٹیریٹ میں کام کیا۔ 1994 میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ 1996 میں صدر فاروق احمد خان لغاری نے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت اٹھاون ٹو بی کے وار سے ختم کر دی۔ سیاسی تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں آئین کی اس شق کا استعمال اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر  ہی ہوتا تھا۔ بینظیر بھٹو کو اپنے قریبی ساتھی سے اس کی توقع نہ تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے  سے پہلے فاروق لغاری کی نواز شریف سے دشمنی کو دوستی میں بدلا گیا جس کی تفصیلات کے لیے عابدہ حسین کی کتاب ‘ پاور فیلئر’ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

فاروق لغاری نے معراج خالد کو نگران وزیراعظم مقرر کیا جن کی انقلابی کابینہ میں شفقت محمود بھی شامل تھے۔ نجم سیٹھی اور ارشاد احمد حقانی بھی نگران وزیر بنے۔ لغاری اور معراج خالد کے عزائم بلند تھے۔ یہ انتخاب کے ساتھ ساتھ احتساب بھی کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے صدارتی آرڈیننس بھی جاری ہوا۔احتساب پاکستان میں انتخابات التوا میں ڈالنے کا  آزمودہ نسخہ تھا لیکن لغاری اینڈ کمپنی یہ کام کرنے میں ناکام رہی۔

شفقت محمود نے نگران وزیر بن کر اپنے سیاسی رستے مسدود کر لیے جن کے کھلنے کے لیے انہیں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کا انتظار کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور نگران وزیر بننے کے بعد ان کی تیسری سیاسی زقند پنجاب میں صوبائی وزیر اطلاعات بننے کے لیے تھی۔ وزیر بن کر انہیں پارلیمانی جمہوریت میں کیڑے نظر آئے۔ عوام کو احتساب کی رفتار تیز کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اور تو اور  ‘جمہوریت قائد اعظم کی نظر میں ‘کے موضوع پر سیمینار سے خطاب بھی فرمایا۔ ایک سال بعد وہ پرویز مشرف سے دور ہو گئے۔ آگے چل کر ان کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہےلیکن یہ نہیں تھا کہ انہوں نے طاقت کے حقیقی مراکز  سے  ربط ضبط ہمیشہ کے لیے ختم کر لیا ہو۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف بنے تو شفقت محمود ان کی خوشامد اور پرویز مشرف کی برائیاں کرنے لگے۔ مثلاً 12 نومبر 2009 کو جنگ اخبار میں اپنے کالم ‘ کیا ہم طویل جنگ کے لیے تیار ہیں؟ میں وہ لکھتے ہیں:

‘بحیثیت کمانڈر، جنرل کیانی کے بارے میں جو بات مجھے اچھی لگی وہ ان کی شخصیت ہے۔ پرویز مشرف کے مقابلے میں جنرل کیانی ایک مکمل، منظم اور محتاط شخص ہیں۔ اس کے برعکس سابق کمانڈر غیر منظم اور لاپروا شخص تھے۔ جنرل کیانی وسیع پس منظر میں سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نظر نہ آنے والی صورتحال کے حوالے سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ پرویز مشرف کی عجلت باز اور تنازع کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کی صلاحیت سے عاری فطرت تھی جس نے ہمیں کارگل کے مسئلے میں پھنسایا۔ اس کا نتیجہ تباہ کن تھا۔’

شفقت محمود کو یہ لکھتے ہوئے یہ خیال نہ رہا کہ کارگل کے بعد ہی پرویز مشرف نے مارشل لگایا تھا جن  سے تبدیلی کی امیدیں انہوں نے وابستہ کی تھیں ۔

جنرل کیانی کی خوشامد ایک طرف دوسری جانب شہباز شریف سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔ اس قریبی  تعلق کی وجہ سے تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد انہیں مسلم لیگی رہنماؤں سے طعنے مینے  سننے پڑے۔

یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ میں جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں تین سال کے اضافے کی شفقت محمود نے کھل کر حمایت کی۔ 3 اگست 2010 کو جنگ اخبار میں اپنے کالم میں شفقت محمود نے جنرل کیانی کی ایکسٹنشن کو خوش آمدید کہا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی کالم میں جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے سیاسی قیادت کو ذلیل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا:

‘ ہم اپنے ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کی لیاقت و اہلیت کا جائزہ لیں تو بیک وقت احمقوں کا اتنا بڑا جم غفیر ملنا بہت مشکل ہے۔’

شفقت محمود جنہیں احمق قرار دے رہے ہیں ان کے سیاسی نامہ اعمال میں میثاقِ جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کی  قابلِ قدر سیاسی و آئینی دستاویزات ہیں لیکن جس سیاسی جماعت سے ان کی تیرہ  سال رفاقت رہی اس کے پاس سویلین بالادستی کے لیے کوئی کاغذ کا ٹکڑا ہو تو بتائیں۔

جس زمانے میں شفقت محمود جنرل کیانی کی شان میں رطب اللسان  رہے ،اس  دور میں وہ  عمران خان پر کڑی تنقید کرتے تھے۔ ایک کالم میں انہوں نے عمران خان کے سیاسی و سماجی تصورات کو نشانہ بنایا۔

شفقت محمود نے لکھا:

‘1997 میں وہ نواز شریف کے ساتھ مل سکتے تھے جس کے نتیجے میں ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہو سکتی تھی لیکن انہوں نے یہ موقع ضائع کر دیا۔وہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی کھیل کھیلتے رہے۔ ریفرنڈم میں ان کی حمایت کی ،کبھی عام انتخابات میں ان کی مخالفت پر کمربستہ رہے۔ 2007 میں ہونے والے عام انتخابات کا انہوں نے بائیکاٹ کر دیا حالانکہ انتخابات میں شریک ہو کر (جیتنے کے بعد) ان کا فیصلہ زیادہ بہتر ہو سکتا تھا ۔

‘اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ہی سے وہ مغربی تہذیب کی مخالفت کرتے آئے ہیں جس کا صاف اور واضح مطلب تھا کہ وہ جدیدیت کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ سمجھنا میرے لیے قدرے مشکل ہے۔ اپنے پسندیدہ پختون قبائلی کلچر کو وہ ملک کے دیگر حصوں میں کس طرح نافذ کریں گے۔ اس کا جواب نہ تو واضح ہے اور نہ ہی عمران خان نے خود اس کی کوئی وضاحت کی ہے’ ۔

طالبان اور القاعدہ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے تحریک انصاف کے بانی سے کہا:

‘ عمران خان اپنے لوگوں کے کاندھے سے کاندھا ملاؤ ، مسلح افواج کا ساتھ دو، اپنے تعصبات سے اوپر اٹھو اور پاکستان کی بقا کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں شامل ہو جاؤ۔ ‘

عمران خان کے  ایسے ناقد کے لیے تحریک انصاف میں شمولیت کوئی آسان بات نہیں تھی لیکن 2011 میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے تحریک انصاف کی سیاسی سرپرستی شروع کی اور بہت سے لوگوں کو اس گھاٹ پر جمع ہونے کے لیے قائل کیا۔ ایسوں میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے شفقت محمود بھی شامل تھے۔ انہیں جلد ہی پارٹی میں  نمایاں مقام حاصل ہو گیا۔ پارٹی عہدہ بھی مل گیا۔2013 کے الیکشن میں وہ لاہور سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے واحد رکن قومی اسمبلی تھے۔

2014 میں  عمران خان مسلم لیگ ن کی حکومت سے  برسر پیکار ہوئے تو اس میں  جنرل پاشا کے پس پردہ کردار کا حوالہ آنے لگا۔ شفقت محمود کے ہاں ان کے قیام کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔

عمران خان نے دھرنے  میں جنگ اور  جیو کی ‘امن کی آشا’  پر تنقید کی اور باہر سے پیسے کھانے کا الزام لگایا تو ادارے کی طرف سے وضاحتی بیان میں بتایا گیا کہ ایک تو اس مہم کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل تھی، دوسرے عمران خان کے دو قریبی ساتھی شفقت محمود اور اسد عمر ‘امن کی آشا ‘کا پہلے دن سے حصہ تھے۔ شفقت محمود ‘امن کی آشا’ کے پہلے سفیر برائے امن تھے۔

 2018 میں شفقت محمود لاہور سے دوبارہ رکن قومی اسمبلی بنے۔ عمران خان حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم کا قلمدان انہیں ملا جو  حکومت کے خاتمے تک ان کے پاس رہا۔ میڈیا پر عمران خان اور پارٹی کا مقدمہ بھی  لڑتے رہے۔

تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جس جارحانہ طرز سیاست کو فروغ دیا  وہ شفقت محمود کے مزاج سے میل نہیں کھاتی تھی۔ اس لیے وہ تحریک انصاف میں رہے لیکن عمران خان کی امیدوں پر پورا اترنا ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ فکری اور عملی ہر دو اعتبار سے انہوں نے  جون 2022 میں  خرابی صحت کی بنیاد پر تحریک انصاف پنجاب کی صدارت سے استعفا دے دیا تھا۔

نو مئی کے بعد تحریک انصاف سے انہوں نے فاصلہ اختیار کر لیا جس سے پارٹی میں ان کی وقعت اور بھی کم ہو گئی۔

 2024 کے الیکشن کے لیے قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے شفقت محمود نے  کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے لیکن پارٹی انہیں ٹکٹ دینے کے موڈ میں نہیں تھی اس لیے انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیے۔ اس کے بعد سے یہی نظر یہی آرہا تھا کہ اب بہت دنوں تک تحریک انصاف میں ٹکنا ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا اور پھر ان کی  سیاست سے ریٹائرمنٹ کی خبر آگئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp