پنجاب اسمبلی کا آج کا اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر ایک دن کے لیے بلایا گیا تھا، اس اجلاس میں اپوزیشن نے اپنے 11 ارکان کی معطلی کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کرنا تھا۔
اجلاس 3 بجے سہ پہر شروع ہونا تھا، تاہم اپوزیشن اراکین مقررہ وقت سے پہلے ہی پہنچ گئے، اور پنجاب اسمبلی کے باہر سڑک پر عوامی اسمبلی کا اجلاس بلا لیا۔
یہ بھی پڑھیں پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن چیمبر کو تالے کیوں لگائے گئے؟
اپوزیشن ارکان نے خود ہی ایک رکن کو اسپیکر بنایا اور اجلاس میں بجلی کی بڑھتی قمیتوں کے خلاف اور فلسطین و کشمیر کے حق میں قراردادیں بھی منظور کیں۔
اپوزیشن اراکین نے تقریریں بھی کیں، اور اس بات پر زور دیا کہ ہم اس وقت تک پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے حصہ نہیں بنیں گے جب تک ہمارے 11 ارکان کی معطلی واپس نہیں لی جاتی۔ اس اجلاس کا اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے نوٹس لیا اور اپوزیشن کے حوالے سے ایک چارج شیٹ پیش کی۔
آج کے اجلاس پر 2 کروڑ 71 لاکھ روپے خرچ آیا
اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے جانے والے اجلاس میں اپوزیشن کی عدم شرکت پر اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان برہم ہوئے اور حزب اختلاف کو متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ آج ایک اجلاس پر 2 کروڑ 71 لاکھ روپے خرچ آیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اراکین اسمبلی کے ساتھ اسمبلی کے ملازمین کو جس دن اجلاس ہوتا ہے ٹی اے ڈی دیا جاتا ہے، اپوزیشن کے 60 اراکین نے ٹی اے ڈی اے کے لیے حاضری لگائی۔
اسپیکر ملک احمد خان نے کہاکہ یہ لوگ عوامی اسمبلی لگا کر بیٹھتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن کتنے لوگ ہوں گے جو لکھ کر مجھے بھیجیں گے کہ انہوں نے آج کے اجلاس کے لیے تنخواہ نہیں لینی۔
یہ بھی پڑھیں معطل اراکین کی بحالی تک پنجاب اسمبلی میں نہیں جائیں گے، اپوزیشن
اپوزیشن اسپیکر سے کیا مطالبات کررہی ہے؟
ملک احمد خان نے کہاکہ کمرہ، چیمبرز، سرکاری گاڑیوں اور اسٹاف کے لیے اپوزیشن کی درخواستیں آرہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ جب اپوزیشن نے ریکوزیشن دی اور ان کے ارکان خود ہی اجلاس میں نہیں آئے۔
اسپیکر نے کہاکہ میں نے وزارت قانون سے رائے مانگی ہے کہ ایسے اخراجات پر لائحہ عمل کیا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں پنجاب اسمبلی: مریم نواز کی تقریر کے دوران ہنگامہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان کو مہنگا پڑگیا
ملک احمد خان نے مزید کہاکہ اسمبلی میں ضابطہ اخلاق کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے، جن لوگوں نے گالیاں دیں وہ ایوان میں آکر معافی مانگیں، یہاں کسی کو گالیاں نکالنے کی اجازت نہیں دوں گا۔