مملکت پاکستان میں موجود مذہبی جماعتوں کی سیاست پر سوال اٹھانے سے پہلے انسان کو اپنے ایمان اور عاقبت پر فتووں کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ اس ہتھیار کا بے دریغ استعمال ہمارے ہاں مدت سے ہر اس شخص پر ہوا ہے جس نے بھی سوال اٹھایا ہے۔
سوال ارباب بست وکشاد سے متعلق ہے تو عموماً سوال کرنے والے ہی کو اٹھا لیا گیا۔ اگر کسی نے اس ملک میں موجود مذہبی سیاسی جماعتوں سے کوئی جواب مانگنے کی جرات کی ہے تو پھر اس پر کفر کے فتوے داغ دیئے گئے۔
اس تحریر کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے یہ ڈیکلریشن دینا ضروری ہے کہ راقم وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہے جس کا علم کم اور عمل کمتر ہے۔ گناہوں کی فہرست طویل اور بخشش کی درخواست طویل تر ہے۔
چند بنیادی تصورات جو مذہبی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں راسخ ہو چکے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
یہ الیکشن میں کبھی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرتیں۔ پاکستان کے کسی بھی بڑے الیکشن میں ان کی قومی نشستوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ ان میں سے بہت سی جماعتوں کی حمایت صوبائی یا ضلعی سطح پر موجود ہے۔ اکثر مذہبی سیاسی جماعتیں ہر حلقے میں پانچ، دس ہزار ووٹ رکھتی ہیں مگر کسی ایک حلقے میں نشست جیتنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔
ان سب مذہبی سیاسی جماعتوں کے پاس بے پناہ سٹریٹ پاور ہوتی ہے جسے جب چاہے سڑکوں پر لایا جا سکتا ہے۔ یہ سٹریٹ پاور ان مریدوں پر مشتمل ہوتی ہے جو ان جماعتوں کے سربراہ کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب کوئی دھرنا، لانگ مارچ یا نام نہاد انقلاب اس ملک میں لانا مقصود ہوتا ہے اس کے لیے انہی مذہبی جماعتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
ان سیاسی مذہبی جماعتوں کے پاس فنڈنگ کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ان کے کارکن، مریدین، ماننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے اور ان سے تھوڑی تھوڑی رقم اکٹھی کر کے بھی مستقل کمائی کا ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طاقتور ادارے / جماعتیں بھی اپنے مقاصد کے لیے ان جماعتوں کو وقتاً فوقتاً استعمال کرتی ہیں اس لیے ان کے پاس فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ المیہ یہ ہے کہ ان مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سیاست میں جمہوریت کا نام لیا مگر ہمیشہ آمریت کی حمایت کی۔
ایک لمحے کو سوچیں تو ان مذہبی سیاسی جماعتوں سے تاریخ پاکستان میں کون کون سے کام لیے گئے؟ بھٹو کے خلاف نو ستارے اکٹھے ہوئے تو اس کی سربراہی کا اعزاز کس کو ملا؟ جس نے خفیہ طور پر ضیا کی مدد سے ملک بھر میں وہ ہنگامے کئے کہ بھٹو کے ہاتھ سے اقتدار گیا، تختہ دار مقدر بنا اور ملک بھر میں مارشل لگا۔ اور پھر یاد کریں ضیاء الحق کے دور کی مجلس شوریٰ میں کون کون اگلی نشستوں پر بیٹھا تھا؟ افغان جہاد میں مرد مومن مرد حق کا ہاتھ تھامے کون کون اگلے مورچوں کے لیے اپنے جوانوں کو تیار کر رہا تھا؟ پھر نواز شریف اور بے نظیر کی دو باریوں والے دور میں ان مذہبی جماعتوں کے وہ تاریخی لانگ مارچ یاد کریں جس میں درجنوں کارکن مارے گئے اور جنہوں نے جمہوری حکومتوں کے تختے الٹانے پر غلام اسحاق خان کو مضبوط کیا۔ بے نظیر دور میں عورت کی حکمرانی پر فتوے بھی انہوں نے لگائے اور پھر دھونس اور دھاندلی سے مخصوص نشستوں پر اپنی بہنوں بیٹیوں کو اسمبلیوں میں منتخب بھی انہوں نے کروایا۔
مشرف دور میں ایم ایم اے کی خیبر پختونخوا میں حکومت کو یاد کریں۔ اسی ایم ایم اے نے پہلے پہل مشرف کے دور کو توسیع دلائی تھی۔ دو ہزار چودہ میں نواز شریف کے دور میں کینیڈا سے آئے انقلاب کو بھی یاد کریں جس کا نعرہ ’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ تھا۔ سنا ہے کہ اس نعرہ لگانے والے نے اس دھرنے سے اتنا کمایا کہ آج کینیڈا میں اپنی چھوٹی سی ریاست قائم کر لی ہے۔ پھر فیض آباد دھرنا یاد کریں۔ ملک کو بند کرکے بدامنی کا پیغام کس کے ذریعے دیا گیا؟
ہر دور آمریت میں ہر آمر کی سپہ سالار یہ مذہبی جماعتیں ہی بنتی ہیں جن کے پاس نہ اتنے ووٹ ہوتے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں قابل ذکر تعداد میں نشستیں حاصل کر سکیں تاکہ انہیں قومی سیاسی جماعتیں کہا جا سکے، نہ ہی اتنا سیاسی شعور ہوتا ہے کہ انہیں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کو دی جا سکے۔ انہیں آمروں نے مغرب کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی کے طور پر استعمال کیا کہ اگر ہم سے تعاون نہ کیا تو پھر یہ انتہا پسند تمہارا مقدر ہو جائیں گے۔ مغرب بہت عرصے تک ہمارے آمروں کی ڈبل گیم سے بے وقوف بنتا رہا مگر اب سنا ہے عقل اسے بھی آ گئی ہے مگر اپنے ہاں دانش کا خانہ اب بھی خالی ہے۔
اپنا دامن بچا کر مذہبی سیاسی جماعتوں سے سوال ان کی سیاست کے حوالے سے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سوال کسی ایک سیاسی جماعت سے نہیں، ان سب سیاسی جماعتوں سے ہیں جن کے ایک ہاتھ میں دین کا جھنڈا اور دوسرے ہاتھ میں سیاست کا پرچم ہوتا ہے۔ ان سے سوال تو بنتا ہے کہ ان کے کارکنوں کا نصب العین صرف دھرنا، لانگ مارچ، نام نہاد انقلاب ہی کیوں رہ جاتا ہے۔ سڑکیں بند کرنا، پولیس کو ڈنڈے مارنا، پولیس سے ڈنڈے کھانا، تھانوں پر حملے کرنا، ریاست کی املاک کو نذر آتش کرنا ہی کیوں کارکنوں کا مقدر بن جاتا ہے؟ اس ہنگام کے بعد اپنے اپنے امیر کے حکم پر اپنے کارکنوں کی جان کا نذرانہ پیش کرنا اور پھر اس نذرانے کے خلاف احتجاج کرنا ہی مذہبی جماعتوں کی سیاست رہ گئی ہے؟ یہی درس، یہی سبق، یہی تلقین ان جماعتوں میں اپنے کارکنوں کو کیوں کی جارہی ہے؟
سیاسی جماعتوں کا سیاست میں آنے کا مقصد انتخابات جیتنا ہوتا ہے۔ آپ میں سے بیشتر دو یا تین سے زیادہ نشستیں نہیں جیت سکتیں مگر دوسری سیاسی جماعتوں کی درجنوں نشستوں کو برباد کر سکتی ہیں۔ ان سے یہی سپوائلر(SPOILER)کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی آپ کی وجہ سے کوئی ایک بڑی سیاسی جماعت اقتدار سے محروم رہتی ہے اور کبھی دوسری، کیونکہ ہر حلقے میں آپ کا کچھ ووٹ ہوتا ہے جو نشست جیت نہیں سکتا مگر دوسروں کا ووٹ خراب ضرور کر سکتا ہے۔
آپ میں سے کچھ جماعتیں خدمت کی دعوے دار ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کرتی ہیں۔ سیاست کے لیے سب ہی اپنے حلقوں میں عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ لوگ انہیں چندہ تو دے دیتے ہیں زکوۃ اور فطرانہ تو دے دیتے ہیں مگر ووٹ جیسی قیمتی چیز کے سلسلے میں ان پر اعتبار نہیں کرتے، رہا سوال خدمت کا تو اس ملک میں جتنی انسانوں کی خدمت ایک اکیلے عبدالستار ایدھی نے کی وہ مل کر ساری سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں نے نہیں کی۔
اور ایدھی صاحب کا کمال تھا کہ ساری عمر انسانیت کے لیے وقف کی، نہ کبھی کسی پراڈو میں سفر کیا نہ حفاظت کے لیے باڈی گارڈ رکھے نہ کبھی اپنے مطالبات کے لیے کسی شاہراہ کو بند کیا نہ کسی لانگ مارچ میں اپنے کارکن مروائے۔ نہ کبھی کسی کو اسلام کے دائرے سے خارج کیا نہ کسی پر کفر کے فتوے لگائے۔ وہ نامعلوم میتوں کا لباس پہنتے تھے، جھولی پھیلا کر لوگوں سے چندہ مانگتے تھے مگر آمروں کے ہاتھ مضبوط کرکے تجوریاں نہیں بھرتے تھے۔