سمیرا شفیق نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی کھڈی بنائی ہے جس سے وہ چھوٹے سائز کے قالین تیار کرتی ہیں.
اس کے علاوہ وہ کشمیری کڑھائی، پیپر ماشی اور گبھے کا کام بھی کرتی ہیں. انہوں نے بہت ساری خواتین کو یہ ہنر سکھایا ہے۔
مظفرآباد کی رہائشی سمیرا شفیق نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کے والد پشاور میں قالین بنانے کا کام کرتے تھے اور انہیں بھی اس کا شوق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد اور ماموں سے قالین بنانے کا کام سیکھا۔
سمیرا نے بتایا کہ وہ ابتدا میں مظفرآباد کے ایک سینٹر میں کھڈی پر قالین تیار کرتی تھیں لیکن پھر سامان مہنگا ہوجانے کی وجہ سے قالین کی قیمت بڑھ گئی اور اس کے خریدار نہیں رہے لہذا اس سینٹر سے کھڈی اٹھا دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے ایک سرکاری سینٹر میں بیرون ملک سے ایک وفد آیا تھا جنہوں نے ان کے کام کو سراہا اور منہ مانگی قیمت پر قالین بھی خریدا۔
ان کا کہنا ہے کہ بیرونی ممالک میں اس کام کو بہت پسند کیا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں اس کام کی پذیرائی کم ہے۔
سمیرا نے کہا کہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سابق وزیراعظم تنویر الیاس نے کامیاب خواتین پروگرام کے تحت ایک سینٹر قائم کیا تھا جہاں سینکڑوں لڑکیوں کو سلائی، کڑھائی اور اسٹیچنگ سکھائی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ تنویر الیاس کی حکومت ختم ہوتے ہی وہ ادارہ بند ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ سینٹر قائم ہوا تھا اس وقت خواتین کو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کے ہاتھوں سے بنائی گئی اشیا بیرون ملک فروخت ہوں گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
سمیرا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کا اپنا ادارہ ہو جہاں وہ خواتین کو کام سکھا سکیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ سامان مہنگا ہونے کی وجہ سے یہ ان کے لیے ناممکن ہے۔