بنوں میں دہشتگردی اور اور ممکنہ آپریشن کے خلاف تاجر برداری کی جانب سے شٹر ڈاون ہڑتال، دھرنے اور امن مارچ سے پیدا ہونے والے حالات پر خیبر پختونخوا ایپکس کمیٹی کا خصوصی اجلاس کل ہو گا جس میں امن مارچ کی جانب سے نامزد 5 ممبران بھی شرکت کریں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پہلا اجلاس ہو گا جس میں احتجاج کرنے والوں کے نمائندے شرکت کریں گے اور مطالبات صوبے سب سے بڑے فورم کے سامنے رکھیں گے۔
اپیکس کمیٹیاں کب بنیں اور کردار کیا ہے؟
دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد اس وقت کی قیادت نے ملک میں دہشتگردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبہ اور فوری ایکشن کی غرض سے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا تھا اور اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے صوبائی اپیکس کمیٹیاں بھی بنائی گئی تھیں۔
سابق آئی جی خیبر پختونخوا و سکرییڑی داخلہ و قبائلی امور سید اختر علی شاہ ان اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ خیبر پختونخوا اپیکس کمیٹی سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کے دور سے کام کرتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنوں میں امن بحال ہوگیا، بیرسٹر سیف
سید اختر علی شاہ نے بتایا کہ اپیکس کمیٹی پالیسی اور فیصلہ ساز کمیٹی ہے جس میں وزیراعلیٰ، گورنر، کور کمانڈر، چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس اور حساس اداروں کے افسران اور دیگر شرکت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں اہم اور خفیہ امور بھی زیر بحث آتے ہیں اور اہم امور کے حوالے سے فیصلہ بھی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اپیکس کمیٹی اجلاس میں نیشنل ایکش پلان پر عملدرآمد کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔
امن مارچ کے ممبران میں کون کون شامل ہیں؟
وزیراعلیٰ کی جانب سے جمعرات کو اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلانے کے فیصلے کے بعد امن مارچ کے شرکا نے 5 ممبران کے نام حکومت کو ارسال کر دیے جو اپیکس کمیٹی اجلاس میں ان کی نمائندگی کریں گے۔
جرگے کی نمائندگی صوبائی وزیر ملک پختون یار خان، سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم، رکن کے پی اسمبلی عدنان وزیر، سابق سینیٹر باز محمد اور بنوں چیمبر آف کامرس کے صدر ناصر خان بنگش کریں گے۔
اہم مطالبات جو کمیٹی کے سامنے رکھے جائیں گے؟
اپیکس کمیٹی اجلاس میں پیش کرنے کے لیے امن مارچ کی جانب تشکیل کردہ جرگے نے 16 نکاتی مطالبات کو حتمی شکل دی دی ہے جس میں سر فہرست آپریشن عزم استحکام ہے جو اسے کسی صورت منظور نہیں ہے۔
جرگے کی جانب سے یہ بھی مطالبات کیے گئے ہیں کہ جن طالبان نے ہتھیار ڈال دیے صوبے سے ان کے مراکز مستقل طور پر ختم کردیے جائیں، رات کے وقت پولیس گشت کو یقنی بنایا جائے، دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں پولیس پر کسی ایجنسی کا دباؤ نہ ہو، گھروں اور مدارس میں سرچ آپریشن آرمی کی بجائے پولیس یا سی ٹی ڈی کرے اور جمعہ خان روڈ اور برما شیل پوائنٹ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا جائے۔
علاوہ ازیں طالبان کی طرف سے گشت کا فوری خاتمہ اور تمام لاپتا افراد کو عدالت میں پیش کرنے اور مقامی پولیس کے وسائل اور استعداد کار بڑھانے کا مطالبہ بھی اپیکس کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
مطالبات میں سی ٹی ڈی کو مضبوط کرنے، اچھے اور برے طالبان کے خلاف بلاتفرق کارروائی اور اس عمل میں کسی ایجنسی کی مداخلت نہ کرنا بھی شامل ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زخمی پولیس اہلکار سی ایم ایچ میں علاج کے حقدار ہیں، مقامی قدرتی وسائل بالخصوص گیس اور معدنیات بنوں کے عوام کو دیے جائیں، غلام خان بارڈر کو تجارت کے لیے کھولا جائے، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بحال کی جائیں، ایم آئی اور پولیس میں جھگڑے پر معطل پولیس اہلکار کو بحال کیا جائے، بنوں کینٹ میں دہشتگردوں کے حملے کے دوران 3 شہریوں کی شہادت کی جوڈیشل انکوائری کی جائے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ امن معاہدے کے بعد جرگہ ممبران کو نشانہ نہ بنایا جائے۔؎
اجلاس کیوں بلایا گیا اور اہم کیوں؟
دہشتگردوں کے خلاف آپریشن عزم استحکام اور دہشتگردی کے خلاف بنوں کے تاجر برادری نے ایک روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ورکرز نے اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر شرکت کی۔
پولیس ذرائع کے مطابق امن مارچ کے دوران فائرنگ کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اور مظاہرین مشتعل ہو گئے اور حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور واقعے کے خلاف امن مارچ کے شرکا نے احتجاجی دھرنا دیا جو بدستور جاری ہے۔
بنوں کے ناخوشگوار واقعے کے بعد صوبائی حکومت سرگرم ہو گئی اور مزاکرات کا عمل شروع ہوا۔
امن مارچ کے شرکا نے 45 رکنی جرگہ تشکیل دیا جو انتظامی افسران کے بعد وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور سے پشاور میں ملا اور 16 نکاتی مطالبات پیش کیے جس کے بعد صوبائی اپیکس کمیٹی اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا تاکہ ان مطالبات پر غورکیا جائے۔
صحافی عارف حیات نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن مارچ کا پہلا مطالبہ ہی آپریشن عزم استحکام کے خلاف ہے اور اس حوالے سے ہونے والے فیصلے پر صوبے کے عوام کی نظریں اس پر ہیں۔
مزید پڑھیے: کیا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بنوں جرگہ کے تمام مطالبات منظور کر لیے؟
عارف حیات کے مطابق امن مارچ مبران اسٹیبلشمنٹ کے سامنے براہ راست اپنے مطالبات رکھیں گے اور وہ اس وقت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں اور پورے صوبے میں اس وقت ممکنہ آپریشن کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں اور احتجاج ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ امن مارچ والوں کو یقین دہانی کرائی گئی ہو گی کہ کوئی آپریشن نہیں ہو گا لیکن ٹارگیٹڈ آپریشن پر انہیں اعتماد میں لیا جائے گا جبکہ باقی مطالبات مان لیے جائیں گے‘۔
’اپیکس کمیٹی مطالبات سنے گی‘
سابق آئی جی اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر اجلاس میں اہم اور خفیہ معلومات شئیر کی جائیں بلکہ کبھی کبھار ایسی معلومات کو متعلقہ حکام کو علیحدہ سے دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اجلاس میں عام لوگوں یا مظاہرین کے نمائندوں کی شرکت اہم ہے اور وہ براہ راست اپنے مطالبات فیصلہ ساز فورم کے سامنے رکھیں گے‘۔
مزید پڑھیں: کچھ قوتوں نے بنوں امن مارچ کو سیاست کی نذر کیا، اب پروپیگنڈا ہورہا ہے، وزیر اطلاعات
اختر علی شاہ نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اس بار کمیٹی بریفنگ نہیں دے گی بلکہ متاثرین یا مظاہرین کے مطالبات کو سنے گی۔
ایک سوال پر سابق آئی جی نے کہا کہ پہلے کی نسبت اب کے پی پولیس میں بہت بہتری آئی ہے ان کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے جبکہ تعداد بھی ایک لاکھ 30 ہزار تک پہنچ چکی ہے جو کسی بھی حالات سے نمٹنے کے لیے کافی ہے تاہم انہوں نے مشترکہ حکمت عملی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن میں پولیس کے علاوہ فوج بھی ہونی چاہیے تاکہ دہشتگردی کو مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔