کملا ہیرس ٹرمپ الیکشن، چور سپاہی جیسا ہونے جا رہا ہے؟

جمعرات 25 جولائی 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل کملا ہیرس نے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ جیسوں کو ڈیل کرنا جانتی ہیں، میں پراسیکیوٹر رہی ہوں اور وہ کنویکٹ ہو چکا ہے۔ بطور پراسیکیوٹر میرا ایسوں سے بہت واسطہ رہا ہے جو خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث تھے یا فراڈی تھے۔ اپنی صدارتی مہم کے پہلے دن ہی کملا ہیرس نے سو ملین ڈالر الیکشن مہم کے لیے فنڈ اکٹھا کر لیا۔ ابھی ڈیموکریٹ کے کنونشن میں کملا  کو باضابطہ نامزدگی درکار ہے۔ البتہ اس کے لیے درکار حمایت وہ حاصل کر چکی ہیں۔

ریپبلکن کے ساتھ ستھری ہوئی ہے۔ وہ دو ڈھائی سال بائیڈن کو سوچ کر الیکشن مہم ڈیزائن کرتے رہے۔ بائیڈن کی عمر، اس کا بھول جانا فوکس نہ کر پانا ان کا ٹارگٹ بنا رہا۔ اب ان کو کملا کی صورت میں ایک ایسے امیدوار کا سامنا ہے جو ٹرمپ سے بھی بیس سال چھوٹی ہے۔

کملا کا تعلق کیلیفورنیا سے ہے۔ یہ امریکی ریاست امریکی ٹیک انڈسٹری کا گھر مانی جاتی ہے۔ مائیکرو سافٹ کی ملینڈا گیٹ نے کملا کی فوری حمایت کر دی ہے۔ ارب پتی ماکر کیوبن کا کہنا ہے کہ وائس پریذیڈنٹ بزنس کے لیے بہت اوپن پالیسی رکھیں گی، کرپٹو اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس دوست پالیسی بنائیں گی۔

وائٹ ہاؤس میں اوبامہ کے بعد پھر ایک ایسا صدر آئے گا جس کو ہائی ٹیک انڈسٹری اپنا دوست اور قریبی سمجھتی ہو گی۔ یو ایس انرجی سیکٹر کو پھر چیلنج درپیش ہوں گے۔ مڈل ایسٹ کی انرجی مارکیٹ پر انحصار سے نکلنے کے لیے امریکی انرجی انڈسٹری پر دباؤ بڑھ جائے گا۔

کملا کی خارجہ پالیسی وہی رہے گی جو بائیڈن کی تھی۔ وہ اپنی فارن افیئر ٹیم بھی شاید تبدیل نہ کریں۔ چین، روس، یوکرین، ناٹو اور مڈل ایسٹ ایشیا پیسیفک کے حوالے سے کچھ بدلنے نہیں جا رہا۔ ہیومن رائٹس کے حوالے سے یہ بائیڈن سے زیادہ حساس ہیں۔

جوبائیڈن کے استعفے کو مختلف انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بائیڈن نے اپنی دوسری ٹرم اس لیے چھوڑی ہے کہ اس کی پالیسی کا تسلسل برقرار رہے۔ بائیڈن خود کو دوسری جنگ عظیم کے اثرات سے متاثر ہونے والی جنریشن کا نمائندہ سمجھتا اور بتاتا ہے۔ ایسا نمائندہ جو پرانی جنریشن کو نئی سے جوڑے ہوئے ہے۔ اکیاسی سال کے بائیڈن کا سیاسی کیریئر پچاس سال پر محیط ہے۔ ڈیموکریٹ اب ہارے تو امریکی پالیسی اور ریاست بہت تبدیل ہو سکتی ہے۔

ٹرمپ جو ریپبلکن پارٹی میں بھی ایک وقت لہر سمجھا جا رہا تھا۔ خیال تھا کہ یہ گزر جائے گی، اس نے اپنا نائب صدر جے ڈی وینس کو بنا لیا ہے۔ جے ڈی 39 سال کا ہے، جو گلوبلائزیشن، انڈسٹری کی ری لوکیشن، جنگوں اور امیگریشن سے متاثر ہونے والے امریکیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک طرح سے ٹرمپ اپنا سیاسی وارث سامنے لے آیا ہے۔

جے ڈی اکانمک پاپولرازم پر یقین رکھتا ہے۔ یہ امریکی اکانومی کو مسابقت کی بجائے پروٹیکشن میں ترقی دینا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امپورٹ پر سخت ٹیرف لگاؤ، جو پراڈکٹ امریکا سستی نہیں بنا سکتا، وہ کوئی بیچنے لائے تو اس پر ٹیرف اتنا لگاؤ کہ امریکی پراڈکٹ اس غیر ملکی پراڈکٹ کا مقابلہ کر سکے۔ ایسا ہو گا تو  امریکا کے اندر روزگار بھی رہے گا۔ غیر قانونی تاریکین وطن کو واپس بھیجو ۔

ٹرمپ سے امریکا کے حریف اتنا نہیں گھبراتے جتنا امریکا کے دوست اور اتحادی گھبراتے ہیں۔ اتحادی یورپ، ناٹو، جاپان، تائیوان، انڈیا، کوریا سب پر سختی کا حامی ہے۔ امریکا سے کماتے ہو تو امریکا سے خریدو، دفاع چاہیے تو مفت نہیں ملے گا۔ یوکرین کی جنگ تمھارا مسئلہ ہے تم ہی خرچو۔

امریکی الیکشن دنیا پر طرح طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کے آنے تک وہ وقت گزار لیں۔ اسرائیل کے بارے میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن مختلف پالیسی رکھتے ہیں۔ چین روس انڈیا مڈل ایسٹ سمیت یورپ میں امریکی الیکشن کے نتائج اور اس کے اثرات پر غور ہو رہا ہے۔ پالیسی کو شکل دی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کے آنے کی صورت میں کیا کرنا ہے اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

بائیڈن الیکشن سے الگ اس لیے ہوا ہے کہ اس کی پارٹی الیکشن نہ ہارے۔ اس لیے تھوڑی ہوا ہے کہ ٹرمپ کو واک اوور ہی مل جائے۔ ڈیموکریٹ پارٹی اب کملا کی بتائی تھیم پراسیکیوٹر اینڈ فیلن پر ہی الیکشن لڑنے جا رہی ہے۔ اس تھیم کا مطلب وہی چور بمقابلہ سپاہی ہی بنتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp