فلسفہ میں اہم ترین نکتہ سوال ہے۔ سوال کے متعلق کئی ایک تعریفات گھڑی گئی ہیں۔ مثلاً سوال ایک تشخیصی جملہ ہے، ایک انکوائری پوچھ تاچھ، جانچ پڑتال یا چھان بین کرنے کا آلہ ہے۔ معلومات کے حصول، الجھاؤ کی کیفیت سے نکلنے یا شک دور کرنے کے لیے زبان کا بہترین استعمال ہے۔ مختصر اور جامع طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت اور سچائی کا راستہ ہے۔ یوں تو انسانی تاریخ سوالوں کی تاریخ ہی ہے مگر کچھ بنیادی سوال آج تک نہ صرف ایک معمہ ہیں بلکہ اپنے سینے میں کائناتی وسعت لیے ہوئے ہیں۔
کیا ہم خود سے درست سوال پوچھ رہے ہیں؟
یہ سوال ہیں جو ماقبل تاریخ سے لے کر آج تک قریب تمام تہذیبوں میں مشترک ہیں اور انہی سوالوں نے انسان کو پہلے اساطیر، پھر فلسفہ اور پھر سائنس کے ذریعے حقیقت کی کھوج پہ مامور کیا۔ انسان کلی حقیقت کے ادراک سے آج بھی کوسوں دور ہے اور نہ جانے کلی حقیقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ اگر کلی حقیقت موجود ہے تو انسان اس تک پہنچنے کے لیے درست راستے پر ہے یعنی مناسب ترین سوال پوچھ رہا ہے یا نہیں اور اگر حقیقت موجود نہیں ہے تو کیا یہ سب لغو ہے؟ یہ الگ بحث ہے۔
کرہ ارض پر جب پہلے انسان کے شعور کی کھڑکی کھلی تو اس نے خود سے کیا سوال پوچھا ہو گا؟ یہ بنیادی سوال کیا ہیں؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے سب سے پہلا جو سوال خود سے پوچھا ہو گا وہ ‘میں کہاں ہوں؟’ ہو سکتا ہے۔ تاحال انسان کو شعور کے اعتبار سے تقابلی طور پر اپنے جیسی کوئی دوسری مخلوق نہیں مل سکی۔ اکیلے پن کی اس شدت نے اسے اپنی تلاش پر اُکسایا اور سوال گہرا ہوتا گیا۔ مذاہبِ عالم بالخصوص ابراہیمی مذاہب نے اس کا آسان جواب پیش کیا ہے مگر انسان نے کہیں نہ کہیں اسے تسلیم کرنے کی بجائے خود اپنی ذات کی کھوج شروع کرتے ہوئے سچ کی طرف پہلا قدم اٹھایا۔
ایک سوال نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا
اس سوال کی ابتداء کب ہوئی اور اس سے جڑی تخلیق کائنات سے متعلق اساطیر، کہانیاں اور نظریات کا سلسلہ کیسے شروع ہوا اس بارے میں آج تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی۔ لیکن فلسفہ مغرب کی تاریخ میں تھیلیس نامی ایک فلسفی کا ذکر ملتا ہے جس نے کہا کہ ہر چیز اپنی ہیئت میں پانی ہے۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ انسان کہیں نہ کہیں پانی کے لامحدود سمندر میں بے یار و مددگار جینے کے جتن کر رہا ہے۔ پھر اس سوال کی پرتیں کھلتی گئیں اور کائنات منکشف ہوتی گئی۔
کائنات کے بارے میں کون کون سے ابتدائی مفروضے پائے جاتے ہیں؟
پھر کسی نے کہا یہ آگ ہے جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے کسی نے کہا یہ مٹی ہے کسی نے کہا یہ ہوا ہے کسی نے کہا یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے جہان، الغرض سبھی نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے اور زمین کو مرکز کائنات قرار دیا۔ تیسری صدی ق م میں ارسطرخس نامی یونانی فلسفی نے پہلا ہیلیو سینٹرک ماڈل پیش کیا جس کے مطابق زمین سال میں ایک بار سورج کے گرد گھومتی ہے مگر اس کا نظریہ تاریخ کی اندھی گردش کی نظر ہو گیا اور آخر کار سولہویں صدی میں پھر سے انگڑائی لی۔
کوپر نیکس کی دریافت ایک عظیم انقلاب
کئی صدیوں بعد پولینڈ کے ماہر فلکیات کوپر نیکس نے وہی بات سولہویں صدی عیسوی میں دوہرائی اور اپنے ہیلیو سینٹرک ماڈل سے ثابت کیا کہ زمین بھی دوسرے سیاروں کی طرح محض ایک سیارہ ہی ہے۔ اسی نظریے کے حق میں گیلیلیو اور کیپلر نے بعد میں ثبوت پیش کیے اور پھر نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کر کے زمین کو مرکز کائنات کے طور پر پیش کرنے والے نظریہ کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ یوں اس سوال کی ایک قلعی کھل گئی کہ ہم جتنا سوچتے رہے کائنات اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔
انسان کا خلا میں سفر
کوپر نیکس کی دریافت کو ایک انقلاب کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور پھر انسان اس کھوج میں اپنی رفتار تیز سے تیز تر کرتا گیا۔ اس کے بعد انقلاب در انقلاب برپا ہوتے گئے اور انسان جو محض ایک کنوئیں کا مینڈک تھا۔ جسے یہ چھوٹا سا سیارہ زمین مرکز کائنات محسوس ہوتا تھا اور جس کے نزدیک یہ کائنات ہوا، پانی، آگ یا مٹی کی بدلی ہوئی شکلوں پر مشتمل تھی وہ ایک طرف اٹامک اور سب اٹامک پارٹیکلز کی تہہ میں چلا گیا اور دوسری طرف بلیک ہول کی لامتناہی وسعتوں میں گم ہوتا گیا۔
آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت
آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بیسویں صدی کی عظیم دریافتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بنیاد پر ہی بگ بینگ، بلیک ہول اور کائناتی پھیلاؤ جیسی تھیوریز سامنے آئیں۔ یہاں تک کہ متوازی کائناتوں کا تصور بھی آن پہنچا ہے اور یوں انسان جہاں پہلے اس سیارے کے باہر کی کائنات سے واقف نہ ہونے کے باعث اپنی محدودیت سے خوفزدہ تھا وہیں اب اس کائنات کی لامحدودیت سے خائف ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بہت عجیب ہے اور انسان کو اس سارے سفر میں سوائے حیرت کے جو بھی ہاتھ آیا وہ محض اپنی تن آسانی ہی ہے۔
کیا انسان نے اس سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے؟
میں کہاں ہوں؟ تب تک انسان اس سوال کے جواب کی تلاش کا سفر جاری رکھے گا جب تک زمین پر بچ جانے والا آخری آدمی یہ خیال ہی جھٹک نہ دے۔ سو وہ اس بات کو جانے بغیر کہ میں کہاں ہوں خود کو تسلی دیتا رہے گا کہ میں جہاں ہوں وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس راستے کی تلاش میں میری نوع کے تمام جانوروں کو موت آ گئی۔ لہذا اب مجھے یہ نہیں جاننا کہ میں کہاں ہوں۔ بلکہ صرف یہ جاننا ہے کہ میں جہاں ہوں وہاں کیوں ہوں اور کیا کرنا ہے؟
کہیں یہ سوال وجودی بحران کی جڑ تو نہیں؟
شاید وہ پہلا انسان جس کے ذہن میں کہیں یہ سوال آیا تھا کہ میں کہاں ہوں؟ محض اسی نے اپنی ذات اور گرد و نواح کی مجموعی مطابقت کے احساس سے اصل حقیقت کا لمس پایا ہو۔ یا وہی آخری شخص جو کائناتی وسعت اور لایعنیت سے گھبرا کر اس سوال کی کھوج کے کارِ عبث کو ہی چھوڑ دے گا، یقیناً وجودی بحران سے چھٹکارا پا کر اصلی سچائی محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے ذہن میں بھی یہی خیال آیا کہ میں یہاں اس کائنات کو تسخیر کرنے کے لیے ہی تو آیا ہوں۔۔۔پھر؟