سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن التوا کیس میں حکومت کی طرف سے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگرآپ کہیں کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر معاملات طے کر سکتی ہیں تو ہم کچھ دنوں کے لیے سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مکالمہ کریں، وہ نہیں ہوتا تو پاکستان کو بے سمت نہیں چھوڑا جا سکتا۔سماعت کے دوران میں ایک موقع پر چیف جسٹس اپنے دوست عمر عطا بندیال کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔
الیکشن التوا کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیا 3 رکنی بینچ تشکیل دیدیا گیا۔ نئے بینچ کے سربراہ بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہی ہیں، ان کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔ سماعت کے لیے 2 بجے کا وقت دیا گیا۔
جب سماعت شروع ہوئی توچیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ یہ صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے تھی، ہم نے پھر بھی تحمل کا مظاہرہ کیا، اس صورتحال میں پاکستان بار کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان بار کونسل کے عہدیدارمجھے چیمبر آکے ملے۔ پاکستان بار کونسل کو اس صورتحال میں سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت اور بار ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ اختلافات سامنے آئے ہیں، ہمارا ایک دوسرے سے قریبی تعلق ہے، دو ججز نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کی، کچھ سیاسی معاملات کی وجہ سے اختلافات آئے، ہم مل کر اس صورتحال سے نمٹیں گے، بیرونی اختلافات ہوتے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی۔ میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کردیتے ہیں، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔میڈیا اور پریس کانفرنسز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ میڈیا معاشرے کی کان اور ناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، تو قع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگرآپ کہیں کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر معاملات طے کر سکتی ہیں تو ہم کچھ دنوں کے لیے سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مکالمہ کریں۔ اگر وہ نہیں ہوتا تو پاکستان کو بے سمت نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسے لوگ جنہیں کل غدار قرار دیا گیا، اب اسمبلی میں بات کر رہے ہیں اور ان کی بات عزت سے سنی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کو جوڑ کر رکھنے کے لیے آئین بہت ضروری ہے۔ اسمبلیاں توڑنا ایک آئینی اقدام تھا لیکن آئین میں ہے کہ 90 دن میں انتخابات ہونے چاہئیں۔
اس دوران میں پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ اپ کو بعد میں سنیں گے۔ حسن رضا پاشا نے کہا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کر لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، ججز کے باہمی تعلقات اچھے ہیں۔ کل اور آج دو ججوں نے سماعت سے معذرت کی۔
بعدازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان سے کہا کہ وہ دلائل شروع کریں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ منگل والا دن میرا پہلا دن تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ! جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کے لیے فریقین کو ہدایت کی، عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کرے، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہو سکتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ آئین ہی کو فوقیت دی ہے، ججز کو دفاترسے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں متعدد بہترین ججز واپس نہیں آسکے۔ انہوں نے کہا کہ آئین،جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں،اسمبلی کی مدت ہوتی یے، ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کرنے کا اختیار ہے، 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر صورت میں الیکشن تو کرانے ہیں، ہمیں ڈائیلاگ کی یقین دہانی کرائی جائے تو کچھ وقت دے سکتے ہیں۔ یقین دہانی نہیں کرائی جاتی تو عدالت اپنی ذمہ داری پوری کرے گی، ہمیں الیکشن کیلئے فنڈز کے بارے میں بتائیں۔ دوسرا مسئلہ سکیورٹی کا ہے، نصف پولنگ سٹیشن انتہائی حساس ایریا میں ہیں۔ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشتگردی ہے، دہشتگردی تو 90 کی دہائی سے ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پر مصروف ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھنا ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل بینچ سے الگ ہو چکے ہیں۔ دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، نو رکنی بینچ کے دو اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیدگی اختیار کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا، آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے؟ عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں، اس میں کہاں لکھا ہے؟
اٹارنی جنرل نے 27فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر اپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی میں مداخلت ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپ نے کہا، ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے۔ آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا کہ ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے،جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔ بہرحال آپ درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پر آپ دلائل ضرور دیں۔ فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، عدالتی بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ ایک بات یہ ذہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں۔ موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کوئٹہ کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے، اس ہفتے بھی لاہورمیں بینچ تھا۔ 9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا۔ جسٹس اطہرمن اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا۔ 2 سال جسٹس فائزعیسیٰ کیس چلا اورعدالت کو سزا ملی۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے۔ عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں۔ جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 20سال کی نسبت بہترین ججز ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں۔ جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا۔ انہوں نے کہا کہ آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے۔ قانون پر بات کریں گے تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا بھی دل ہے، میرے بھی جذبات ہیں۔ جو کچھ کیا، پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا۔ جو کچھ آج تک کیا آئیں اور قانون کے مطابق کیا۔ ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں؟
سماعت کے دوران میں ایک موقع چیف جسٹس عمرعطا بندیال اپنے دوست اقبال حمیدالرحمن کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ میرے دوست اقبال حمید الرحمن کو بار کونسل کی شکایت پر استعفیٰ دینا پڑا۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفی دینے سے روکا تھا۔انہوں نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔
اس موقع پرالیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ جذباتی ہو گئے ہیں، اگر ہم جذباتی ہو گئے تو کیا ہو گا؟انہوں نے کہا کہ آپ مجھے سن ہی نہیں رہے، الیکشن کمیشن کا موقف پورا نہیں سنا گیا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔
عرفان قادرنے کہا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں، روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سنیں گے، آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے۔
عرفان قادر بولے’3 منٹ نہیں بلکہ مختصراً بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
اس پر چیف جسٹس نے منصور عثمان اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اٹارنی جنرل صاحب! کیس کی بات کریں، ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے؟ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے؟ اگر 20ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا؟ 1500ارب خسارے میں 20ارب سے کتنا اضافہ ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا۔
جسٹس منیب اخترنے پوچھا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کا جائزہ لینں، رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز سٹیٹ بینک میں ہوتا ہے۔ سٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے۔ کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز میں رقم ہونا اور خرچ کے لیے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں۔ سٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کردی۔ اور کیس کی سماعت بروز پیر ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے پیر کے روز سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری دفاع کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں ،ہم وسائل کا بندوست کریں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل الگ، پھر بینچ ٹوٹ گیا
اس سے قبل آج صبح جب الیکشن التوا کیس کی سماعت شروع ہوئی تو 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل سماعت سے معذرت کرتے ہوئے بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن میں تاخیر کے خلاف تحریکِ انصاف کی جانب سے دائر درخواست کی متوقع سماعت کرنیوالا سپریم کورٹ کا چار رکنی بینچ بھی جمعہ کو ٹوٹ گیا جب سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے سماعت کرنے سے معذرت کرلی۔
’میں سمجھتا ہوں کہ اس بنچ میں میری ضرورت نہیں ہے۔ مجھ سے آرڈر لکھواتے وقت کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ حکم نامہ کمرہ عدالت میں بھی نہیں لکھوایا گیا تاہم عدالت میں فیصلے کے اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے تشکیل کردہ چار رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن التوا کیس کو آج کی باقاعدہ کاز لسٹ میں بھی شامل کیا تھا۔
واضح رہے کہ الیکشن التوا کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ گذشتہ روز پہلی مرتبہ اس وقت ٹوٹ گیا تھا جب جسٹس امین الدین خان نے مقدمے کی سماعت کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کے اس فیصلے کے بعد کمرہ عدالت میں 3 کرسیاں لگا دی گئی تھیں جب کہ عدالتی عملہ، وکلا، سیاسی رہنما اور صحافی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ تاہم عدالت نے جمعہ کی نماز کا وقفہ کرتے ہوئے سماعت دو بجے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے قبل آج صبح سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات پر سرکلر جاری کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا فیصلہ مسترد کردیا تھا۔
سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے 183 (3) سے متعلق فیصلے پر جاری کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے سرکلر کے ذریعے ازخود نوٹس اختیار سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا فیصلہ مسترد کیا ہے۔
سرکلر کے مطابق ازخود نوٹس اختیار سے متعلق دی گئی آبرزرویش کا بینچ کے سامنے موجود کیس پر اطلاق نہیں ہوتا۔
’انفرادی طور سے پر عدالتی رولز کی تشریح سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔‘
سرکلر میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں میڈیا کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے کیس میں واضح فیصلہ دے چکی ہے۔
’اس طرح کی تشریح کرنے کا اختیار صرف چیف جسٹس کو ہے جس کے قواعد 184(3) میں دیے گئے ہیں۔‘
سرکلر کے مطابق جسٹس قاضی فائز کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ لارجر بنچ اکثریتی فیصلہ دے چکا ہے۔
جسٹس فائز عیسٰی کے فیصلے میں ازخودنوٹس کا اختیار استعمال کیا گیا۔ سرکلر میں اس انداز میں بینچ کا سوموٹو لینا پانچ رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا سپریم کورٹ رولز میں ترمیم تک از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں ہونا چاہیےلہذٰا جب تک بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم نہیں ہوتی تمام مقدمات کو موخر کیا جائے۔
یہ تحریری فیصلہ اس تین رکنی بینچ نے حفاظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران دو، ایک کے تناسب سے دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے از خود نوٹس کے تحت زیرِ سماعت مقدمات کو موخر کرنے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ جسٹس شاہد وحید نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔