پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین تین ہفتوں سے کیوں سراپا احتجاج ہیں؟

جمعہ 31 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشاور یونیورسٹی میں سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں مبینہ طور پر فائرنگ سے سپروائزر کے قتل کے بعد اساتذہ سمیت دیگر یونیورسٹی ملازمین کا احتجاج تیسرے ہفتے بھی جاری ہے۔ احتجاج اور بائیکاٹ کے باعث کلاسیں معطل اور امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

رواں برس مارچ کے اوائل میں سیکیورٹی سپروائزر ثقلین بنگش پشاور یونیورسٹی کمپیس میں ہاسٹل کے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے کہ ان کے ہمراہ موجودہ گارڈ نے انہیں مبینہ طور پر فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا جس کے بعد وہ ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

پشاور یونیورسٹی کے سیکیورٹی سپروائزر ثقلین بنگش، جنہیں رواں برس مارچ کے اوائل میں ان کے ماتحت سیکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

یونیورسٹی کمپیس میں دو ہفتوں کے دوران اس نوعیت کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ تھا اسے پہلے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں سیکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے لیکچرار بشیر احمد کو قتل کیا تھا۔

واقعہ کے خلاف پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن، کلاس فور اور دیگر ملازمین سراپا احتجاج بن گئے اور یونیورسٹی میں گارڈز کی فائرنگ کے واقعات کو سیکیورٹی ناکامی قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ایسے واقعات سے اساتذہ، ملازمین اور طلبہ میں بے چینی اور خوف کو ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے اس واقعہ کی شفاف تحقیقات، نجی سیکیورٹی کمپنی گارڈز کے نفسیاتی جائزے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ذمہ داروں خلاف کاروائی جبکہ وائس چانسلر کی برطرفی کے مطالبات اٹھاتے ہوئے احتجاج شروع کیا جو بدستور جاری ہے۔

کیمپس میں دو اسٹاف کے قتل کے خلاف پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن اور دیگر ملازمین تقریباً تین ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں۔

سابق صدر پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن فضل ناصر نے وی نیوز کو بتایا کہ ملازمین کا احتجاج سیکیورٹی انچارج ثقلین بنگش کے قتل کے بعد سے جاری ہے جس میں تدریسی عمل سمیت دیگر امور کا مکمل بائیکاٹ کرکے وائس چانسلر آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا جارہا ہے۔

سابق صدر پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن فضل ناصر اور احتجاجی دھرنے میں شریک ملازمین کیمپس سیکیورٹی کی ناکامی سمیت یونیورسٹی کے تمام مسائل کا ذمہ دار وائس چانسلر کو ٹھہراتے ہیں۔

’ایسے واقعات سے یونیورسٹی میں بے چینی اور خوف کا ماحول ہے۔  اور خوف میں تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔  ہم سمجھتے ہیں کہ اس تمام تر صورتحال کی ذمہ داری وائس چانسلر پر عائد ہوتی ہے۔‘

فضل ناصر اور احتجاجی دھرنے میں شریک ملازمین سمجھتے ہیں کہ کیمپس سیکیورٹی کی ناکامی سمیت یونیورسٹی میں جتنے بھی مسائل ہیں ان کے ذمہ دار وائس چانسلر ہی ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ موجودہ وائس چانسلر کو فوراً برطرف کیا جائے۔

پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس

لکی مروت سے تعلق رکھنے والے مگر یونیورسٹی ہاسٹل میں مقیم طالبعلم نجیب اللہ کلاسز نہ ہونے کے باعث اپنے تعلیمی نقصان کا شکوہ کرتے ہیں۔ ’پورا ایک ماہ ہوگیا رمضان شروع ہوگیا مگر کلاسز نہیں ہو رہی ہیں۔ سمسٹر سسٹم میں ایک ماہ مزید کلاسز نہیں ہوئیں تو امتحان کس طرح دیں گے۔‘

طالبعلم نجیب اللہ کے مطابق انتظامیہ اور اساتذہ دونوں کو طلبہ کا سوچنا چاہیے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔

شبانہ کا تعلق چترال ہے۔ بہار کی چھیٹوں میں وہ اسلام آباد اپنے رشتہ داروں کے ہاں چلی گئی تھیی مگر اب واپس ہاسٹل آگئی ہیں۔ ان کے والدین یونیورسٹی میں قتل کے واقعات اور احتجاج کی خبروں سے پریشان ہیں۔

’میرے والدین کہتے ہیں کہ واپس گاؤں آجاؤ لیکن گھر بہت دور ہے نہیں جا سکتی۔ میری یونیورسٹی انتظامیہ سے اس مسئلہ کا جلد از جلد حل نکالنے کی اپیل ہے تاکہ طالبعلموں کا کوئی حرج نہ ہو۔‘

سرکاری جامعات کے چانسلر ہونے کے ناطے گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے وائس چانسلر اور ایسوسی ایشن کا رواں ہفتے دو مشترکہ اجلاس طلب کیے لیکن مصروفیات کے باعث اجلاس کے لیے وقت نہیں نکال سکے۔

گورنر ہاؤس کے ذرائع کے مطابق گورنر نے اساتذہ کو احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن مظاہرین وائس چانسلر کی برطرفی پر بضد ہیں جو اس طویل احتجاج کا باعث بن رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp