سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ابصار عالم نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو گھر بیٹھے گزشتہ 10 برس سے سستی گیس کی مد میں ماہانہ قریباً 19 ارب روپے کی سبسڈی مل رہی ہے جو سالانہ 232 ارب روپے بنتی ہے۔ گزشتہ 10 برس میں ٹیکسٹائل مل مالکان کو سستی گیس کی مد میں دی گئی رعایت 2320 ارب روپے (9 ارب ڈالر) بنتی ہے۔ قریباً اتنا ہی حکومت نے پچھلے 10 برس میں آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے۔
سما ٹی وی پر اپنے ٹاک شو میں ابصار عالم نے کہا کہ گوہر اعجاز ٹیکسٹائل ٹائیکون، بزنس لیڈر اور سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔انہوں نے پاکستان میں مہنگی بجلی کے معاملے کو ہائی لائٹ کیا ہے، اپنی ایکس پوسٹس میں انہوں نے بجلی کے بلوں میں اضافے کی اصل وجوہات کا انکشاف کیا اور بتایا کہ بجلی کے کارخانے چلانے والے امیر ترین افراد اور کمپنیاں کس طرح عوام کو لوٹ رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:آئی پی پیز کے خلاف سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں، 40 مالکان پر مقدمہ کریں گے: سابق وزیر داخلہ گوہر اعجاز
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اعجاز گوہر نے بہت اچھا کام کیا، ڈیٹا بھی شیئر کیا، اگرچہ یہ کام وہ حکومت رہتے ہوئے نہیں کر پائے تھے، اس کی جو بھی وجہ ہو لیکن اس کا فائدہ عوام کو ہوگا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس لوٹ مار کا حساب لینے کے لیے سپریم کورٹ جا رہے ہیں اور اپنے پیسے سے فرانزک آڈٹ بھی کروائیں گے۔ 40 آئی پی پیز مالکان کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ حالانکہ 101 افراد نے بجلی کے کارخانے لگائے تھے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعجاز گوہر صرف 40 کے خلاف کیوں عدالت جا رہے ہیں۔
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اگرچہ اعجاز گوہر کا مؤقف درست ہے لیکن وہ آدھا سچ بتا رہے ہیں اور آدھا چھپا رہے ہیں جو ٹیکسٹائل ملز مالکان کے بارے میں ہے، کیونکہ وہ خود بھی ٹیکسٹائل مل کے مالک ہیں۔ کیا ان کے منتخب کردہ 40 آئی پی پیز مالکان میں وہ ٹیکسٹائل ملز مالکان بھی شامل ہیں جنہوں نے کیپٹیو پاور پالیسی کے تحت پاور پلانٹس لگائے پھر بجلی بیچی اور سستی گیس کی مد میں حکومت سے 2320 ارب روپے (9 ارب ڈالر) کی رعایت بھی حاصل کی۔
مزید پڑھیں:آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟
انہوں نے اس رعایت کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آئی پی پیز کے علاوہ کیپٹیو پاور پلانٹس مالکان کے ساتھ بھی معاہدہ کیا تھا۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان کا دعوٰی تھا کہ ہمیں سستی گیس فراہم کریں، جس سے ہم بجلی بنا کر سستی اشیا تیار کریں گے اور عالمی منڈی پر ان اشیا کی قیمت کم ہونے پر ہمیں کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔
مذکورہ معاہدہ قریباً 10 برس قبل 2012- 13 میں ہوا تھا۔ اس دوران تمام بڑے ٹیکسٹائل ملز مالکان کو سستی گیس کی مد میں 1300 سے 1600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو والی گیس 686 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں فراہم میں گئی۔ حکومتی پاور پلانٹس کو بھی یہ گیس ایک ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں دی جاتی تھی۔
مزید پڑھیں:پاکستان میں آئی پی پیز کے مالک کون؟ ان کو کتنے کیپیسٹی چارجز ادا کیے گئے؟
ٹیکسٹائل ملز مالکان کو گھر بیٹھے سستی گیس کی مد میں ماہانہ قریباً 19 ارب روپے کی سبسڈی ملتی رہی جو سالانہ 232 ارب روپے بنتی ہے۔ گزشتہ 10 برس میں ٹیکسٹائل مل مالکان کو سستی گیس کی مد میں دی گئی رعایت 2320 ارب روپے بنتی ہے، یعنی 9 ارب ڈالرز روپے کا فائدہ۔ اتنا ہی حکومت نے پچھلے 10 برس میں آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ اس دوران برآمدات بھی نہیں بڑھیں۔
ابصار عالم نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ کیا سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز 40 آئی پی پیز مالکان کی طرح ان ٹیکسٹائل ملز مالکان کو بھی سپریم کورٹ میں لیکر جائیں گے۔