حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان دھرنے کے خاتمے اور جماعت اسلامی کے مطالبات کے حوالے سے مذاکرات کا پہلا دور ختم ہو گیا ہے جس کے بعد حکومت نے دفعہ 144 کے تحت گرفتار کیے گئے جماعت اسلامی کے کارکنوں کی فوری رہائی کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر مطالبات پورے کرنے کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی قائم کردی گئی ہے
اتوار کو راولپنڈی میں کمشنر آفس میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور کے اختتام کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ جماعت اسلامی اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:حکومت کی جماعت اسلامی کو مذاکرات کی پیش کش، 3 رکنی کمیٹی قائم
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے جماعت اسلامی نے گرفتار 35 افراد کی فہرست فراہم کی ہے جنہیں دفعہ 144 کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ حکومت نے ان 35 افراد کو فوری رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ حکومت ملک کی خوشحالی کے لیے ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے جس کے لیے جماعت اسلامی کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے، ملک کی بہتری اور استحکام حکومت کا بھی ایجنڈا ہے، عوام کو ہم بھی ریلیف دینا چاہتے ہیں، ہم نے اسی کے تحت ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا تھا۔ حکومت اخراجات کم سے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
حکومتی کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی رہائی کا حکم دے دیا ہے، جماعت اسلامی کے مطالبات سنے ہیں وہ وہی ہیں جن کے حل کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔
جماعت اسلامی کی باتیں تسلیم کرتے ہیں
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے وفد نے جو باتیں کی ہیں، ہم بھی انہیں تسلیم کرتے ہیں، ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک کی معیشت بہترہو، عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے، اس کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں، ہمارا وژن بھی یہی ہے کہ خوشحال اور خود مختار پاکستان ہو۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے فیکٹریاں ملک میں لانا چاہتے ہیں، ہمارا روپیہ مستحکم ہوا ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو یہاں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔
عطااللہ تارڑ نے کہا کہ جماعت اسلامی کے مطالبات پر حکومت نے ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں وزیر پانی و بجلی، سیکریٹری توانائی، ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے نمائندے کو شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کل ہماری کوشش ہو گی کہ کل مذاکرات کے دوسرے دور میں تمام معاملات طے پا جائیں اور جماعت اسلامی کے دھرنے کو با عزت واپس بھیجیں۔ معاملات کے حوالے سے ہم سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جماعت اسلامی کی حکمت عملی تبدیل، 3 مقامات پر دھرنا دیدیا
انجنیئر امیر مقام نے کہا کہ جماعت اسلامی کے جو مطالبات ہیں وہ ہم سب کے ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ پیٹرول سستا ہو، تنخواہیں زیادہ ہوں، ٹیکس بھی نہ ہوں، ہم بھی یہی چاہتے ہیں جو جماعت اسلامی چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جماعت اسلامی کے وفد سے کہا ہے کہ آپ کو ہمارے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا ہو گا کہ اگر آپ کی جیب میں 100 روپیہ ہو اور آپ اس سے مطالبہ 800 روپے کا کر دیں تو وہ کہاں سے دے گا۔ ہمیں آمدن اور اخراجات کو دیکھ کر بات کرنی چاہیے، جماعت اسلامی کے مطالبات پر ٹیکنیکل کمیٹی بھی بنا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کی حکومت کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ لیاقت بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کے دھرنے کے بعد مذاکرات کے لیے حکومت نے خود پیش کی ہے۔ جماعت اسلامی نے مذاکرات کی پیش کش قبول کی ہے۔
مزید پڑھیں:جماعت اسلامی کا دھرنا جاری، حکومت کو پیش کیے گئے 10 مطالبات سامنے آگئے
پہلا دور اچھے ماحول میں ہوا، حکومتی ٹیم پر دھرنے کا ایجنڈا واضح کر دیا ہے، وضاحت بھی پیش کر دی ہے کہ دھرنا جماعت کا ذاتی پارٹی ایجنڈا نہیں، یہ عوام کے مسائل ہیں، یہ قوم کی تقویت کے لیے ہیں، پاکستان کو استحکام دینے کے لیے ہے۔
کمیٹی سے کہا ہے کہ بجلی بل ادا کرنا عوام کے لیے مشکل ہو گیا ہے، پیٹرول کی قیمتیں نا قابل برداشت ہو گئی ہیں، تنخواہ دار طبقہ پر اضافی ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں، ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں جماعتِ اسلامی دھرنا: عوام کا مقدمہ لڑ رہے، مطالبات کی منظوری تک کہیں نہیں جارہے، حافظ نعیم الرحمان
حکومتی کمیٹی کا بتا دیا ہے کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر(آئی پی پیز) کمپنیاں ملک کی معیشت کے لیے ناسور بن گئی ہیں، ہم نے اپنی پوری تفصیل رکھ دی ہے، آئی پی پیز کے کوئی بین الاقوامی معاہدے نہیں ہیں۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ آئی پی پیز قوم کے لیے موت کا پروانہ بن گئی ہیں۔ ہم نے حکومتی کمیٹی کے سامنے پوری تحقیقی رپورٹ رکھی ہے، یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں لوگوں کو یہ کہہ کر ٹال دیا جائے گا کہ یہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ ہے۔
لیاقت بلوچ نے بتایا کہ اس حوالے سے ہمارا صرف چین کے ساتھ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو ہمارا انتہائی قریبی دوست ہے، چین پاکستان کو کبھی بھی کسی مشکل میں نہیں دیکھ سکتا، اگر حکومت چین کے ساتھ معاہدے کی آڑ میں 25 کروڑ عوام کو بھینٹ چڑھائیں تو ایسا ہم کبھی نہیں ہونے دیں گے۔
مذاکرات بھی ہوں گے، دھرنا بھی جاری رہے گا
حکومتی کمیٹی نے کہا ہے کہ وہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دے گی، جس کے بعد ہمارے درمیان پھر مذاکرات کا دوسرا دور ہو گا، اس دوران گفتگو بھی جاری رہے گی، احتجاج اور دھرنا بھی جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے بڑی تعداد میں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا جو وزیر داخلہ محسن نقوی کے کہنے پر رہا ہوئے لیکن 35 لوگوں کو رہا نہیں کیا گیا تھا جس کے لیے کمیٹی سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے ان کی رہائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکومت نے اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو اسے بھی ریلیف ملے گا اور عوام کو بھی ریلیف ملے گا، لیکن اگر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا اور مطالبات نہ مانے گئے تو پھر احتجاج جاری رہے گا اور عوام اپنا حق لے کر رہیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ 10 نکاتی مطالبات میڈیا نے پیش کیے ہیں، ہم نے جو مطالبات پیش کیے ہیں وہ حکومتی کمیٹی کے پاس پہنچ گئے ہیں۔