سپریم کورٹ کے 2 نئے ایڈہاک ججز کون ہیں؟

پیر 29 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں گزشتہ دو ہفتوں سے ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا معاملہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ آج سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ ججز، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ایک سال کے لیے بطور ایڈہاک جج حلف اٹھا لیا۔

ابتدائی طور پر ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا معاملہ خاصا متنازعہ رہا۔ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کی مخالفت بھی کی گئی، لیکن بالآخر یہ ممکن ہو گیا۔

کیا ایک سپریم کورٹ جج اور ایک ایڈہاک جج کے اختیارات میں کوئی فرق ہوتا ہے؟

اس سلسلے میں جب ہم نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور عمران شفیق ایڈووکیٹ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ایڈہاک جج ہر طرح کے مقدمات کی سماعت کر سکتا ہے، کسی بھی بینچ کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن وہ سپریم کورٹ میں موجود ریگولر ججز سے جونیئر تصور ہوتا ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود خان

جسٹس سردار طارق مسعود خان، کا آبائی علاقہ تو کلر سیداں ہے۔ وہ راولپنڈی کے ایک نامی گھرانے وکیل گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی سردار اسحاق خان فوجداری قانون کے بہت بڑے ماہر خیال کئے جاتے تھے اور فوجداری مقدمات میں بطور وکیل ان کا بہت بڑا نام تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کے بھتیجے اور سردار اسحاق خان کے بیٹے جسٹس اعجاز اسحاق خان اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود خان بھی فوجداری قوانین کے ماہر ہیں۔ انہوں نے 1985 میں ڈسٹرکٹ کورٹ راولپنڈی سے وکالت کا آغاز کیا اور پھر 1987 میں وہ بطور ایڈووکیٹ ہائیکورٹ انرول ہوئے۔ اس کے بعد 2008 میں وہ بطور وکیل سپریم کورٹ انرول ہوئے۔ ستمبر 2009 میں وہ لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اور اس کے بعد مئی 2011 میں مستقل ہو گئے۔ نومبر 2015 سپریم جوڈیشل کمیشن نے ان کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی کی منظوری دی اور پھر اس سال 10 مارچ کو وہ اپنے عہدے کی معیاد مکمل کر کے ریٹائر ہو گئے۔

18 جولائی کو بطور ایڈہاک جج ان کی تعیناتی پر غور کیا گیا۔ اس سے قبل انہیں 2 جولائی کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا رکن بنایا گیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کی موجود چیف جسٹس، جسٹس عالیہ نیلم کی تقرری میں ان کی رائے شامل تھی۔

جسٹس سردار طارق مسعود پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں

جب گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو 3 رکنی ججز کمیٹی کو منتقل کرنے سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل متعارف کروایا تو سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بنیچ نے 13 اپریل 2023 اس قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ اس قانون میں ایک نکتہ ازخود مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے فیصلہ دیا تھا کہ ازخود مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق ملنا چاہیے۔

جسٹس سردار طارق مسعود اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر مقدمے میں ضمانت دی تھی۔

بطور ممبر جوڈیشل کونسل 4 ججز کے خلاف ریفرنسز ختم کرنے کی سفارش

ستمبر 2023 میں بطور ممبر سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس سردار طارق مسعود خان کو سپریم کورٹ کے 4 ججز کے خلاف شکایات کا جائزہ لینے کی ذمے داری دی گئی، جن میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس ریٹائرڈ اعجاز الاحسن اور جسٹس عائشہ اے ملک شامل تھیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے شکایات کا جائزہ لے کر چاروں کے خلاف شکایات ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل

ایک سال کے لیے ایڈہاک جج مقرر ہونے والے جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ابتدائی طور پر ایڈہاک جج بننے سے انکار کر دیا تھا، تاہم سپریم جوڈیشل کمیشن نے چھ، تین کے تناسب سے ان کی تعیناتی کی منظوری دی اور اس کے بعد آج وہ ایڈہاک جج مقرر ہو گئے۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ گومل یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد انہوں نے 1979 میں قانون کی ڈگری لی۔ 1982 میں انہوں نے وکالت کا آغاز کیا، جس کے بعد 1984 میں وہ بطور وکیل ہائیکورٹ انرول ہو گئے۔ اس کے بعد 2003 میں وہ سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔

2009 میں وہ پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے جبکہ 2011 میں مستقل جج بنے۔

اپریل 2014 میں وہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے جبکہ 30 دسمبر 2016 کو وہ سپریم کورٹ کے جج بنے جہاں سے وہ 13 جولائی 2022 کو ریٹائرڈ ہو گئے۔

تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی طریقے سے روکنے پر، پارلیمنٹ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف سنگین غداری کے مقدمات درج کرے؛ جسٹس مظہر عالم

اپریل 2022 میں جب سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کا معاملہ سپریم کورٹ آیا تو جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، اسد قیصر، قاسم سوری اور فواد چوہدری نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ پارلیمنٹ ان کے خلاف آرٹیکل 6 سنگین غداری کے مقدمات شروع کرے۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس

اکتوبر 2018 میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے قومی احتساب بیورو کی شریف فیملی کے خلاف 18 سال پرانا حدیبیہ پیپر ملز کرپشن ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کی نظرثانی اپیل مسترد کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp