اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود ایک فیصد کم کردی ہے، پاکستان پر 67 ہزار ارب سے زائد کا قرض تھا جس پر 20.5 فیصد سود ادا کرنا تھا، شرح سود میں ایک فیصد کی کمی سے پاکستان کے مجموعی قرضے میں 675 ارب روپے کی کمی ہوگئی ہے، اب سود سمیت مجموعی قرضہ 81 ہزار 366 ارب روپے سے کم ہو کر 80 ہزار 691 ارب روپے ہو گیا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں بتایا کہ ستمبر میں پھر شرح سود اور معاشی اشاریوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ گزشتہ سال مہنگائی کی شرح 38 فیصد پر تھی جو اب کم ہو کر 12.6 فیصد پر آچکی ہے جبکہ آئندہ برس مہنگائی کی شرح 11.5 سے 13.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ شرح سود کم ہونے سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ کس حد تک کم ہوگا۔
مزید پڑھیں:زرمبادلہ کے ذخائر جلد 9 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے، گورنر اسٹیٹ بینک
معاشی تجزیہ کار شعیب نظامی کے مطابق اس وقت پاکستان کا مجموعی قرضہ 67 ہزار ارب سے زائد ہے اور اس پر سود کی شرح 20.5 فیصد تھی، یعنی قرض میں سود شامل کرکے مجموعی قرض 81 ہزار 366 ارب روپے تھا۔ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک فیصد کمی کرنے کے بعد اب کل قرضے میں بھی ایک فیصد کمی ہو گئی ہے۔
شعیب نظامی کے مطابق ایک فیصد شرح سود میں کمی کے بعد اب اس قرض پر 19.5 فیصد سود ادا کرنا ہوگا، یعنی اس طرح شرح سود میں کمی سے پاکستان پر قرض کے بوجھ میں 675 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔ اب سود سمیت مجموعی قرضہ 81 ہزار 366 ارب روپے سے کم ہو کر 80 ہزار 691 ارب روپے ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں:ملک میں زیرگردش 5 ہزار روپے کے جعلی نوٹ: ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک تک دھوکا کھاگئے
سینئر صحافی تنویر ہاشمی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شرح سود میں ایک فیصد کمی کا ایک تو یہ فائدہ ہے کہ قرض کے بوجھ میں بڑی کمی ہو گئی ہے، لیکن یہ بھی ناکافی ہے، اگر مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں 4 فیصد تک کمی کرنی چاہیے تھی۔
تنویر ہاشمی کے مطابق شرح سود کے کم ہونے سے ان کاروباری شخصیات کو بھی فائدہ ہوگا جنہوں نے قرض لے کر کاروبار شروع کیے ہوئے ہیں، جبکہ حکومت کو بھی قرض کی واپسی میں کچھ ریلیف ملے گا۔