پاکستان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کی جانب سے مبارک احمد ثانی نظرثانی کیس میں دیے گئے فیصلے پر گرما گرم بحث ہوئی ہے، اور ارکان اسمبلی نے کہا ہے کہ عدالتوں کو آئین کو ری رائٹ کرنے کا اختیار نہیں، نبی کریم ؐ کی حرمت پر آنچ برداشت نہیں کی جائے گی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ عدالتوں کو آئین کی تشریح کا اختیار ہے لیکن آئین کو دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں، نبی کریم ﷺ کی حرمت پر آنچ آئے گی تو آواز بھی اٹھائیں گے اور ہاتھ بھی اٹھائیں گے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 295 سی نبی کریم ﷺ کی ذات کے حوالے سے ہے۔
واضح رہے کہ 24 جولائی کو سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس میں نظرثانی درخواستیں جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ احمدیوں کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ فیصلوں سے انحراف نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں مبارک احمد ثانی کیس میں نظرثانی کی درخواستیں جزوی طور پر منظور
وزیر قانون نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آقا ﷺ کی حرمت کے لیے ہر شخص مرمٹنے کو تیار ہے، اس معاملے کو لا اینڈ جسٹس کمیٹی کو بھیجنا چاہتے ہیں تو اس کو ضرور دیکھیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ کسی کو پاکستان کے منصف اعلیٰ کو قتل کرنے کا فتویٰ دینے کا اختیار نہیں، اس طرح کے بیانات پر ریاست کی زیرو ٹالرینس پالیسی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ تمام جماعتیں ساتھ بیٹھ جائیں اس پر بات کر لیتے ہیں، پارلیمان میں ہر بات شریعت، آئین اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں احمدی شہری کی ضمانت کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ نے علما سے تحریری رائے طلب کرلی
انہوں نے کہاکہ ہمارا ملک آئین و قانون کے تابع ہے، کوشش ہونی چاہیے ہماری طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو کہ گستاخوں کو موقع ملے۔
فیصلے پر فی الفور پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، حنیف عباسی
اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی حنیف عباسی نے کہاکہ اس فیصلے پر فی الفور پارلیمانی کمیٹی بنائیں اور علما کرام کو بلائیں، اس کا فوری حل نکالنا ضروری ہے کیونکہ لوگوں کے دل دکھے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے ابہام پیدا ہوا، علی محمد خان
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ابہام پیدا ہوا، لیکن کسی بھی صورت ریاست اور حکومت کے علاوہ کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، اس معاملے پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔
کیا آئین کو ری رائٹ کرنا آرٹیکل 6 کے زمرے میں نہیں آتا؟ عبدالقادر پٹیل
پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انسانی حقوق کے نام پر مغرب سے یہ فتنہ پھیلایا جاتا ہے، یہ مرتد وہاں جاکر کہتے ہیں پاکستان میں ہم پر بہت ظلم ہورہا ہے، یہ ہمارا ٹائٹل استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو اس قسم کے فیصلے دینے والوں کی سزا تجویز کرے، آئین کے آرٹیکل کو اگر ری رائٹ کیا گیا ہے تو کیا وہ آرٹیکل 6 کے زمرے میں نہیں آتا، ہمارے ایمان پر حملہ مت کیا جائے۔
جج کی رائے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں، عبدالغفور حیدری
جمعیت علما اسلام (ف) کے رکن اسمبلی عبدالغفور حیدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ جج صاحبان بتائیں انہیں آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار کہاں سے ملا، جج صاحب کی ایسی رائے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔
انہوں نے تجویز دی کہ آج ہی ایوان میں قرارداد مذمت منظور ہونی چاہیے۔
بعد ازاں اسپیکر نے معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کے سپرد کردیا اور کل 31 جولائی کو ہی اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت کردی۔
مقدمے کا پس منظر
سپریم کورٹ نے 6 فروری کو احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے فرد مبارک احمد ثانی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر مذہبی تنظیموں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا، جبکہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت انگیز مہم بھی چلائی گئی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ سماعت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل اور جامعہ نعیمیہ سے معاونت طلب کرتے ہوئے قرآن اکیڈمی کراچی اور جمعیت اہلحدیث کو بھی حکم نامے کی کاپی ارسال کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ اسلامی اسکالر یا کوئی بھی ذمے دارشخص عدالت کی معاونت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
اصل مقدمہ کیا تھا؟
6 دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں تحفظ ختم نبوت فورم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ کی مدعیت میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت 5 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق 7 مارچ 2019 کومدرسۃ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی ’تفسیرِ صغیر‘ طلبا میں تقسیم کی گئی تھیں۔
مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیرکی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ تقریب کے منتظمین اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔